کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 77
1۔ کسی انسان کو مالی تصرف سے اس لیے روک دینا کہ اس کے مال میں کسی دوسرے کا حق ہے، جیسے مفلس کے مال کو اس کے قرض خواہوں کی وجہ سے روکنا یا کسی مریض کو( اس کے مال میں ورثاء کے حق کی وجہ سے)تہائی مال سے زائد کی وصیت کرنے سے روکنا۔ 2۔ کسی انسان کو خود اس کی ذاتی مصلحت اور فائدے کے لیے مالی تصرفات سے روکنا تاکہ وہ اپنا مال ضائع اور بربادنہ کر لے جیسے کوئی کم عمر یا کم عقل یا مجنون ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ " "بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو۔"[1] بعض علمائے کرام کے نزدیک"السُّفَهَاءَ" سے مراد بچے اور عورتیں ہیں۔ اور بعض علماء کے نزدیک بے وقوف ،چھوٹے بچے اور دیوانے (پاگل)مراد ہیں۔ ان کو مال نہ دیا جائے تاکہ مال خراب نہ ہو۔ آیت میں یہ حکم ولی اور سر پرست کو دیا ہے کیونکہ وہی ان کی نگرانی کرنے والے ہیں اور وہی ان کے محافظ ہیں۔ پہلی قسم کا تعلق مفلس کے ساتھ ہے۔ مفلس وہ ہے جس پر فوری ادائیگی والا قرض اتنا ہو کہ اس کی ملکیت کی تمام اشیاء دے دی جائیں تو بھی سارے قرض ادا نہ ہو سکیں ۔ ایسے شخص کو مالی تصرف سے روک دیا جائے گا تاکہ قرض خواہوں کا نقصان نہ ہو۔ تنگ دست مقروض جو اپنا قرض اتارنے پر قادر نہیں ،قرض خواہ وصولی قرض کے لیے اس سے شدید مطالبہ نہ کرے بلکہ وہ اسے ضرور مہلت دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ " "اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے۔"[2] تنگ دست مقروض کو مہلت دینے کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُظِلَّهُ اللّٰهُ يَوْمَ لا ظِلَّ إِلا ظِلُّهُ ، فَلْيُيَسِّرْ عَلَى مُعْسِرٍ " "جسے یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس دن سائے میں رکھے جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا تو اسے چاہیے کہ وہ تنگ دست پر آسانی کرے۔[3] افضل یہ ہے کہ تنگدست مقروض کا قرض معاف کر دیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ"
[1] ۔النساء :4،5۔ [2] ۔البقرۃ:2/280۔ [3] ۔المعجم الکبیر للطبرانی :1/304حدیث 899۔