کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 69
کفالت کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی شخص کی جان پہچان کی ضمانت دینا جائز ہے ،مثلاً: کوئی شخص کسی کے پاس قرض لینے کے لیے آیا تو اس نے کہا:"میں تجھے جانتا نہیں ہو ں، اس لیے تجھے قرض نہیں دے سکتا۔" تو ایک دوسرے شخص نے کہا:اس کی جان پہچان کی ضمانت میں دیتا ہوں اور اس کا نام اور اس کی جائے رہائش کی پہچان کرادوں گا۔ چنانچہ اس کے کہنے پر اس شخص کو قرض دے دیا گیا۔ اب اگر مقروض غائب ہو گیا اور اس نے وقت پر قرض نہ لوٹایا تو کفیل کی ذمہ داری ہے کہ اسے حاضر کرے، محض اس کا نام پتہ بتا دینا کافی نہ ہوگا۔ اور اگر وہ مقروض کو(زندہ ہونے کی صورت میں) حاضر نہ کر سکا تو ضامن اس کے قرض کا ذمہ دارہو گا کیونکہ اس کے تعارف کروانے کی وجہ ہی سے اسے قرض دیا گیا تھا گویا وہ پہچان کروانے سے مقروض کا ضامن و کفیل قرارپا گیا۔ حوالہ کے احکام ایک شخص کے ذمے سے قرض تبدیل کر کے دوسرے کے ذمے کر دینا حوالہ ہے ،مثلاً:ایک شخص نے قرضہ دینا ہے اور اس نے کسی سے قرضہ لینا بھی ہے تو قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ کہتا ہے میں نے فلاں سے قرض لینا ہے تو اس سے وصول کر لے۔ اگر یہ تسلیم کر لے تو مقروض بری الذمہ ہو جائے گا۔[1] "حوالہ"سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيءٍ فَلْيَتْبَعْ" "جب تم میں سے کسی (کے قرض)کو غنی کے حوالے کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے۔"[2] متعدد علماء کرام نے" حوالہ " کے جواز و ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے۔
[1] ۔"حوالہ" کی مزید وضاحت یوں ہے کہ مثلاً: اشرف کا اکرم کے ذمے کچھ قرض ہے۔ اکرم کہتا ہے کہ میں نے اسلم سے رقم وصول کرنی ہے، اس لیے تم مجھ سے وصول کرنے کے بجائے اسلم سے وصول کر لو۔ اس مثال میں اکرم(مقروض) محیل ،اشرف (قرض خواہ) محال اور اسلم (مقروض کا مقروض )محال علیہ ہے۔ اگر اسلم ادائیگی کر دے تو اکرم بری الذمہ ہو جائے گا۔ اس عمل کو حوالہ کہتے ہیں۔(صارم) [2] ۔صحیح البخاری الحوالات باب الحوالہ وھل یرجع فی الحوالہ ؟حدیث:2287۔ 2288وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم مطل الغنی۔۔۔۔ حدیث 1564۔