کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 67
میں کوئی مشکل ہو کیونکہ ضمان فرع ہے اصل نہیں اور فرع کو تب اختیار کیا جاتا ہے جب اصل تک رسائی مشکل ہو، نیز ضمان کسی کے حق کی توثیق کے لیے ہوتا ہے جیسا کہ رہن ہے۔ اور رہن سے اپنا حق تبھی پورا کیا جائے گا جب راہن سے مال ملنا مشکل ہو۔ یہی صورت ضمان میں ہو گی مزید یہ کہ مضمون عنہ کی موجودگی میں اور اس سے مال ملنے کی صورت میں ضامن سے مطالبہ کرنا لوگوں کے ہاں بھی بری چیز ہے کیونکہ لوگوں کے ہاں معروف یہی ہے کہ ضامن سے مطالبہ تب ہو جب مضمون عنہ سے مال حاصل کرنا دشوار ہو۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی یہی رائے ہے، اس کے بارے میں انھوں نے فرمایا: یہ قول کافی قوی ہے۔ اگر" مضمون عنہ"ادائیگی یا معافی کے ذریعے سے بری ہو گیا تو ضامن بھی ضمان سے بری ہو گا کیونکہ ضامن کی ذمہ داری مضمون عنہ کی ذمہ داری کے تابع ہے۔ ایک ہی چیز میں دویا زیادہ افراد بھی ضامن ہو سکتے ہیں، یعنی یہ بھی جائز ہے کہ دو افراد مکمل چیز کے ضامن بن جائیں یا اس کے جز کے ضامن بن جائیں ۔ اس صورت میں کوئی ایک تب بری ہو گا جب دوسرا بری ہو گا ۔مضمون عنہ کے بری ہونے کی صورت میں سب بری ہو جائیں گے۔ صحت ضمان کے لیے مضمون عنہ یا مضمون لہ کی پہچان اور تعارف شرط نہیں ،یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس کو ایک شخص جانتا نہیں اس کی ضمان نہیں دے سکتا۔ ضمان کا مال معلوم ہو یا مجہول دونوں صورتوں میں ضمان درست ہے بشرطیکہ مجہول بعد میں معلوم کی حیثیت اختیار کرنے والا ہو۔ قرآن مجید میں ہے: "وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ " "جو اسے لے آئے اسے اونٹ کے بوجھ غلہ ملے گا اور اس(وعدے) کا میں ضامن ہوں۔"[1] ایک اونٹ کا بوجھ غلہ اگرچہ اس کی مقدار مجہول ہے لیکن نتیجۃً اس کا علم حاصل ہو جائے گا ،لہٰذا آیت اس کے جواز کی دلیل ہے۔ فروخت شدہ چیز کے صحیح ہونے کی ضمانت دینا درست ہے، یعنی اگر بعد میں ثابت ہو کہ فروخت کرنے والا اس چیز کا جائز مالک نہیں تھا تو قیمت واپس کرنے کا میں ضامن ہوں۔ کسی شخص پر مستقبل میں واجب الایہ ہونے والے قرض کی پیشگی ضمانت دینا جائز ہے۔
[1] ۔یوسف 12/72۔