کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 63
دے، البتہ اگر رہن کی شے کو صحیح رکھنے کے لیے کسی عمل دخل کی ضرورت ہوتو راہن کو اس کی اجازت ضرور ملنی چاہیے مثلاً: درختوں کو پانی دینا، اس کی کانٹ چھانٹ کرنا یا رہن شدہ جانور کا علاج معالجہ کرنا وغیرہ راہن کی ذمے داری ہے کیونکہ اس میں رہن کی اصلاح و مصلحت ہے۔ رہن کی متصل بڑھو تری، مثلاً:کسی جانورکا موٹا ہونا یا غلام کا کوئی صنعت سیکھنا اور اس کی منفصل بڑھوتری مثلاً: بچوں کی پیدائش ،درخت کا پھل دینا ،حیوان کی اون ،غلام کی کمائی وغیرہ رہن کے ساتھ ملحق ہو گی، لہٰذا قرضہ پورا کرنےکےلیے رہن کے ساتھ اسے بھی بیع میں شامل کیا جائے گا۔ اسی طرح شےکی اجرت یا کوئی فائدہ حاصل ہو تو وہ اس کے تابع ہو گا۔ اور غلام پر زیادتی ہو جانے کی صورت میں ملنے والا تاوان یا دیت رہن کے ذمے ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " لَا يُغْلَقُ الرَّهْنُ، الرَّهْنُ مِنْ صَاحِبِهِ الَّذِي رَهْنَهُ لَهُ غُنْمُهُ وَعَلَيْهِ غُرْمُهُ " "جس نے کوئی شے "رہن" رکھی ہو وہ اس کے مالک سے نہ روکی جائے اس کا فائدہ بھی اسی کے لیے ہے اور اسی پر اس کا تاوان (نقصان ) بھی ہے۔[1] اس کی وجہ یہ ہے کہ راہن گروی شے کا مالک ہے، لہٰذا اس کا خرچ اسی کے ذمہ ہے۔ اسی طرح اگر رہن کا مال کسی سیف (الماری)یا کمرے میں رکھا گیا ہو تو اس کا کرایہ اس کی حفاظت و نگرانی پر مامور شخص کی اجرت، مرہون ریوڑ کے چروانے کی اجرت یہ سب کچھ راہن (مقروض) کے ذمے ہے کیونکہ اس شے پر ہونے والے اخراجات میں یہ خرچ بھی شامل ہے۔ اگر رہن کا کچھ حصہ تلف ہو گیا اور کچھ بچ گیا تو باقی حصہ ہی(قرض کے عوض میں) بطور رہن ہوگا۔ واضح رہے کہ رہن کا کل قرضہ رہن کے کل اجزاء سے متعلق ہے۔ جب رہن کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا تو رہن کا باقی حصہ کل قرضہ کے عوض میں ہو گیا۔ اگر راہن نے قرض کا کچھ حصہ ادا کیا اور کچھ باقی ہے تو وہ رہن کی شے اس وقت تک واپس نہیں لے سکتا جب تک تمام قرض ادا نہ کر دے۔
[1] ۔کتاب الام للشافعی :4/60،والسنن الکبری للبیہقی :6/39،وسنن ابن ماجہ، الرھون ، باب لا یغلق الرهن، حدیث : 2441،وسنن الدارقطنی :3/32،حدیث :2899۔