کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 62
کہ اپنی ذاتی چیز رہن رکھ کر کسی دوسرے کو قرض دلوادے۔ رہن کی شے ایسی ہونی چاہیے جو فروخت ہو سکے تاکہ اگر مرتہن (جس کے ہاں گروی شے موجود ہے) کو وقت مقرر پر قرضہ واپس نہ مل سکے تو اسے فروخت کر کے اپنے قرض کی رقم پوری کر لے۔ رہن رکھنے کی شرط دوران عقد ہو یا عقد کے بعد دونوں صورتیں درست ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ" "اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو کوئی چیز گروی (رہن کے طور پر) قبضے میں رکھ لی جائے۔"[1] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رہن کو کتابت کا متبادل قراردیا ہے اور کتابت تو حق واجب ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے۔ رہن صرف راہن کی جانب سے لازم ہوتا ہے کیونکہ اس میں حق و فائدہ مرتہن کا ہو تا ہے( جس کی حفاظت کے لیے رہن رکھا جاتا ہے)مرتہن کی طرف سے رہن لازم نہیں ہوتا بلکہ اسے شرط رہن فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے کیونکہ رہن میں صرف اس کا فائدہ ملحوظ ہوتا ہے اور اسے اپنے فائدے سے دست بردارہونے کا حق حاصل ہے۔ اگر راہن کے پاس کوئی مشترک چیز ہو جس میں غیر کا حق ہو تو اس چیز میں اپنا حصہ مرتہن کے پاس بطور رہن رکھ سکتا ہے۔ اس لیے کہ وصولی قرضہ کے وقت مرتہن اس چیز میں راہن کا حصہ فروخت کرکے اپنے قرضے کی رقم وصول کر سکتا ہے۔ ادھار خریدی ہوئی شے اپنی طے شدہ قیمت کے بدلے بطور رہن رکھی جا سکتی ہے کیونکہ اس کی قیمت مشتری کے ذمے ہے اور اسے اس چیز کی ملکیت حاصل ہو چکی ہے، لہٰذا اسے اپنی قیمت کے بدلے گروی رکھنا جائز ہے: مثلاً: کسی نے مکان یا کار ادھار خریدی یا نقد خریدی لیکن پیسے ابھی وصول نہیں کیے تو وہ قیمت کی ادائیگی تک رہن کے طور پر رکھی جا سکتی ہے۔ راہن اور مرتہن میں سے کسی ایک کے لیے بھی جائز نہیں کہ دوسرے کی اجازت کے بغیر شے میں تصرف کرے کیونکہ اگر راہن (مقروض)اس میں کوئی تصرف کرے گا تو مرتہن قرض خواہ) کا حق توثیق واعتماد متاثر ہو گا۔اور اگر مرتہن (قرض خواہ)اس میں تصرف کرے گا تو یہ دوسرے کی مملوکہ چیز میں تصرف ہو گا(جو جائز نہیں)۔ جہاں تک رہن سے فائدہ حاصل کرنے کا تعلق ہے تو راہن اور مرتہن جس بات پر متفق ہو جائیں، درست ہے ،مثلاً: اگر دونوں اسے کرایہ دینے پر متفق ہوں تو ٹھیک ورنہ وہ شے بے کار پڑی رہے گی حتی کہ راہن ادھار ادا کر
[1] ۔البقرۃ:2/282۔