کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 57
قرض خواہ کو واپس کر دیتا ہے۔ کسی کو قرض دینا مستحب ہے اس میں اجر عظیم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُقْرِضُ مُسْلِمًا قَرْضًا مَرَّتَيْنِ إِلَّا كَانَ كَصَدَقَتِهَا مَرَّةً" "کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرض دیتا ہے تو(اللہ تعالیٰ کے ہاں) وہ ایک بار کے صدقے کے برابر شمار ہوتا ہے۔[1] یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرض صدقہ کرنے سے بھی افضل ہے کیونکہ قرض ہمیشہ محتاج شخص ہی لیتا ہے۔صحیح حدیث میں ہے: "مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللّٰهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ" "جس شخص نے کسی کی دنیاوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کی تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی پریشانیوں میں سے بڑی پریشانی دور کرے گا۔[2] قرض دینا نیکی کاکام ہے کیونکہ اس سے مقصود کسی مسلمان کی تنگی اور تکلیف کو دور کرنا ہے اور اس کی حاجت و ضرورت کو پورا کرنا مطلوب ہے۔ جہاں تک قرض لینے کا تعلق ہے تو قرض لینا جائز ہے، شرعاً مکروہ نہیں اس لیے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لیا تھا۔ قرض کے درست اور صحیح ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ قرض وہ شخص دے جو اس مال کو صدقے کے طور پر دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ لہٰذا یتیم کے سر پرست کے لیے جائز نہیں کہ وہ یتیم کے مال میں سے کسی کو قرض دے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ قرض کے مال کی مقدار اور اس کی صفت معلوم ہوتا کہ مقروض ویسی ہی چیز یا مال قرض خواہ کو واپس کر سکے ۔چنانچہ قرض مقروض کے ذمہ دین بن جاتا ہے۔اس پر واجب ہے کہ جب واپسی کی طاقت ہو بلاتا خیرادا کرے۔ قرض خواہ کا مقروض پر یہ شرط عائد کرنا حرام ہے کہ وہ ادائیگی کے وقت اصل قرض سے زیادہ رقم ادا کرے گا۔علمائے کرام نے بالا تفاق اسے"سود"قراردیا ہے۔ لہٰذا آج کل بنک والے جو قرضہ کی رقم دیتے ہیں وہ قرضہ کسی ذاتی کام میں خرچ کے لیے ہو یا کسی نفع بخش کام
[1] ۔سنن ابن ماجہ الصدقات باب القرض حدیث:2430۔ [2] ۔صحیح مسلم الذکر والدعاء باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن ولی الذکر حدیث:2699۔