کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 519
باہمی دشمنی جاننے کا معیار یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کا دکھ درد دیکھ کر خوش اور اس کا سکھ اور خوشی دیکھ کر پریشان ہو۔ واضح رہے یہاں دشمنی سے مراد دنیوی دشمنی ہے،دینی دشمنی نہیں کیونکہ دینی دشمنی شہادت کے قبول ہونے میں مانع نہیں، لہٰذا مسلمان شخص کی گواہی کافر کے خلاف قبول ہوگی جس طرح موحد کی گواہی بدعتی کے خلاف قبول ہوگی۔ جو شخص اپنے قبیلے کی حمایت میں متصب ہے، اس قبیلے والوں کے حق میں اس کی گواہی قبول نہ ہوگی کیونکہ اس میں تہمت لگنے کا اندیشہ موجود ہے۔ گواہوں کی تعداد کا نصاب مختلف واقعات میں مختلف ہے: 1۔ زنا اور قوم لوط کے عمل کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے چار آدمیوں کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاء" "وہ اس پر چار گواہ کیوں نہیں لائے۔؟"[1] ایسے معاملات میں چونکہ پردہ پوشی کا حکم ہے، اس لیے نصاب شہادت میں سختی کی گئی ہے۔ 2۔ اگر کوئی شخص مالداری میں مشہور معروف تھا اب اسے محتاج اور فقیر ثابت کیا جا رہا ہے تو اس میں تین آدمیوں کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ حدیث میں ہے: "حَتَّى يَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ: لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ" "یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین اشخاص گواہی دیں کہ فلاں کو فقرو فاقہ کی نوبت آگئی ہے۔"[2] 3۔ زنا کے سوا باقی حدود، جیسے حد قذف ،شراب نوشی ،چوری ،ڈاکہ زنی اور قصاص میں دو آدمیوں کی شہادت قبول ہوگی۔ ان امور میں عورتوں کی شہادت قبول نہ ہو گی۔ 4۔ جس کام کے کرنے میں سزا یا کفارہ نہ ہو یا معاملہ مال سے تعلق نہ رکھتا ہو اور نہ اس سے مقصود حصول مال ہو ،نیز مردوں ہی کو اس سے عموماًواسطہ پڑتا ہو، مثلاً:نکاح ،طلاق اور رجوع وغیرہ تو ان امور میں دو مردوں کی شہادت کافی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے رجوع پر عورتوں کی گواہی قبول کرنے کو درست کہاہے کیونکہ ان کا رجوع کے وقت حاضر ہونا کسی دوسرے معاہدے وغیرہ کی تحریر کے وقت حاضری سے آسان ہے۔[3]
[1] ۔النور:24/13۔ [2] ۔صحیح مسلم، الزکاۃ، باب من تحل لہ المسالۃ، حدیث 1044۔ [3] ۔اعلام الموقعین:1/98۔