کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 511
کی کوئی وجہ ہے۔
اگر لاعلمی سے کسی کو ایسا حصہ مل گیا جس میں عیب تھا تو اسے اختیار ہوگا کہ وہ تقسیم کو فسخ قراردے یا کچھ معاوضہ لے کر تقسیم کو قائم رکھے کیونکہ عیب کا ظہور نقص ہے، لہٰذا اسے مشتری کی طرح اختیار ہوگا۔
دعوی اور دلیل کا بیان
"دعوی" کے لغوی معنی"طلب کرنے اور تمنا کرنے"کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ" "اور ان کے لیے ہوگا جو کچھ وہ طلب (اور تمنا ) کریں گے۔"[1]
فقہاء کی اصطلاح میں دعوی یہ ہے کہ انسان ایک ایسی چیز کے استحقاق کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرے جو کسی کے قبضے میں ہے یا اس کے ذمے ہے۔
"بَيِّنَةُ" (دلیل) کے لغوی معنی"واضح علامت" کے ہیں۔ اور اصطلاح میں دلیل وہ ہے جو حق اور سچ کو واضح کر دے وہ گواہوں کی صورت میں ہو یا قسم کی صورت میں۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"شرع میں بَيِّنَةُ اس چیز کا نام ہے جو حق کو واضح اور نمایاں کردے۔ اللہ تعالیٰ نے حق وسچ کی ایسی علامات اور نشانیاں مقرر کی ہیں جن سے وہ صاف طور پر نمایاں اور ظاہر ہو جاتا ہے۔ جس نے ان علامات و نشانات کو مکمل طور پر گرادیا اس نے شریعت کے بہت سے احکام کو معطل کر دیا اور بہت سے حقوق ضائع کر دیے۔"[2]
مدعی اور مدعا علیہ کے درمیان یہ فرق ہے کہ مدعی وہ ہے کہ اگر وہ چپ ہو جائے، یعنی دعوے سے دست بردار ہو جائے تو اس کے ذمے کچھ نہ ہوگا کیونکہ وہ شے کو حاصل کرنے والا ہے۔ اور مدعا علیہ وہ ہے کہ اگر وہ چپ ہو جائے تو فیصلہ اس کے خلاف ہوگا کیونکہ شے اس سے طلب کی جارہی ہے ۔اس کی خاموشی اس بات کا اقرار ہے کہ وہ کوئی شے دینے کا پابند ہے۔
صحت دعوی یا انکار دعوی کی ایک شرط یہ ہے کہ مدعی یا منکردعوی مکلف ہو، یعنی عاقل و بالغ اور آزاد ہو۔
اگر ایک شے کی ملکیت کے بارے میں دو آدمی دعوی کریں تو وہ شے جس کے قبضے میں ہے اسے ملے گی بشرطیکہ
[1] ۔یس:36/57۔
[2] ۔ الطرق الحکمیۃ لا بن القیم، ص:67۔384۔386۔