کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 507
ادائیگی کی جائے یا یہ کہ مدعا علیہ اس سے بری الزمہ ہو چکا ہے یا کوئی اور صورت پیش آچکی ہے جس سے حق ختم ہو گیا ہے۔ غیر حاضر شخص کے خلاف فیصلہ دینےمیں یہ شرط ہے کہ وہ قاضی کے دائرۂ اختیار سے باہرہو۔ اگر وہ اس کے دائرہ ٔاختیار کی حدود میں ہواور وہاں کوئی فیصلہ کرنے والا (نائب قاضی)موجود نہ ہوتوقاضی کسی ایسے شخص کے نام تحریری آرڈر جاری کرے جوان دونوں کے درمیان فیصلہ کر سکے، اگر یہ ممکن نہ ہوتو کسی بھی شخص کے لیے ان میں صلح کروانے کا حکم جاری کرے۔اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو مدعی سے کہے کہ اپنا دعوی ثابت کرو۔ اگروہ ثابت کردےتو مدعا علیہ کو حاضر کیا جائے گا ،خواہ وہ کتنی ہی دور ہو۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے:"علمائے مدینہ کا مذہب یہ ہے کہ وہ غیر موجود کے خلاف فیصلہ دے دیتے ہیں۔" اور فرمایا:"یہ موقف اچھا ہے۔" علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "امام احمد رحمۃ اللہ علیہ دعوی سننے اور گواہی سننے کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔"پھر علمائے مدینہ اور علمائے عراق کے اقوال بیان فرمائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس مسئلے پر دونوں شہروں کے علماء میں اتفاق ہے۔ غیر مکلف کے خلاف بھی دعوے کی سماعت ہو گی اور فیصلہ دیا جائے گا۔ اس کی دلیل ہند رضی اللہ عنہا کی روایت ہے۔ فیصلہ ہو جانے کے بعد وہ مکلف ہو جائے تو اس کے خلاف دلائل و شہود پیش کر سکتا ہے۔ حصے داروں میں تقسیم کا بیان حصے داروں میں تقسیم کا مسئلہ کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ " "اور انھیں خبر دے دیں کہ بے شک پانی ان کے(اور اونٹنی کے) درمیان تقسیم شدہ ہے۔"[1] نیز فرمان الٰہی ہے: "وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا"
[1] ۔القمر:54/28۔