کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 505
’’اے مسلمانو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔‘‘[1] فقہائے کرام میں اس بات پر اختلاف ہے کہ کیا وصف عدالت ظاہری اور باطنی طور پر ہو ظاہری طور پر کافی ہے۔ اس مسئلے میں دو قول ہیں۔ ان میں سے واضح قول یہی ہے کہ ظاہری عدالت ہی کا اعتبار ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی شخص کی شہادت کو قبول کیا تھا۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول بھی ہے:(الْمُسْلِمُونَ عُدُولٌ)’’تمام مسلمان عادل ہیں۔‘‘[2] قاضی پر لازم ہے کہ وہ عادل شخص کی گواہی کی بنا پر فیصلہ صادر کردے۔ البتہ اگر اس کے خلاف مواد موجود ہو تو جائز نہیں۔ اگر قاضی کو کسی گواہ کے عدل ہونے کا علم نہ ہو تو وہ کسی ایسے معتبر شخص سے معلومات حاصل کرے جو اس کے ساتھ رہنے یا کوئی معاملہ کرنے یا اس کے پڑوس میں رہنے کی وجہ سے خبر رکھتا ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موجود گی میں ایک شخص نے کسی کے بارے میں تعریفی کلمات کہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا : کیا تم اس کے پڑوسی ہو؟ اس نے کہا: نہیں ،پھر پوچھا: کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟اس نے کہا: نہیں۔ پھر امیر المومنین نے پوچھا : تم نے اس سے درہم و دینار کالین دین کیا ہے؟ تو اس نے کہا: نہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر تم اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اگر گواہ کے بارے میں تحقیق کرتے وقت بعض لوگ اسے قابل اعتماد قراردیں اور بعض ناقابل اعتماد تو اس کی گواہی قبول نہیں ہوگی کیونکہ تعریف کرنے والے کی نسبت تنقید کرنے والے کی معلومات گہری اور وزنی ہوتی ہیں۔تعریف کرنے والے کی نظر ظاہری حالات پر ہوتی ہے جبکہ تنقید کرنے والے کی نگاہ انسان کے مخفی حالات پر بھی ہوتی ہے۔ تنقید کرنے والا ایک خامی یا برے وصف کی موجودگی ظاہر کرتا ہے جبکہ تعریف کرنے والا صرف خامیوں کی نفی کرتا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مثبت نافی پر مقدم ہوتا ہے۔ اگر مدعا علیہ اکیلا ہی گواہ کی تعریف کرے یا اسے سچا کہہ دے تو گواہ کے قابل اعتماد ہونے کے لیے یہ بھی کافی ہے کیونکہ گواہ کو قابل اعتماد سمجھنا مدعی کے حق کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، اس لیے اس کے اقرار کی بنیاد پر اس کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا۔ جب قاضی کو مدعی کے گواہ کے قابل اعتماد ہونے کا علم ہوتو وہ اس کی بنیاد پر فیصلہ صادر کر سکتا ہے۔ اب تحقیق کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح اگر اسے گواہ کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو تو اس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دے سکتا۔ اگر
[1] ۔الحجرات:49/6۔ [2] ۔السنن الکبری للبیہقی :10/155۔