کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 50
بھی معلوم ہوا کہ مال کو خطرے میں ڈالنا جائز نہیں۔ اگرچہ مال کے بدلے مال ہی کی صورت کیوں نہ ہو، جب اس کا نتیجہ غیر یقینی ہو۔ گزشتہ بحث سے ہمیں معلوم ہوا کہ جب تک درختوں پر پھل کی درستی ظاہر نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں لیکن یہ تب ہے جب صرف درختوں پر لگے ہوئے پھل کی بیع ہو اور اس میں یہ شرط ہو کہ پھل ابھی نہیں اتارا جائے گا ،البتہ جب پھل کی بیع درخت سمیت ہو یا مذکورہ بالا شرط نہ ہو تو (پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل بھی)جائز ہے۔ فقہائے کرام نے اس کی تین صورتیں بیان کی ہیں جو درج ذیل ہیں: 1۔ درخت پر پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل درخت سمیت پھل کی بیع جائز ہے کیونکہ اس میں پھل درخت کے ضمن میں فروخت ہو جائے گا۔اسی طرح جب کوئی سر سبز کھیتی بمع زمین فروخت کرے تو جائز ہے۔ اس صورت میں سر سبز کھیتی زمین کے ضمن ہی میں فروخت ہو گی۔ 2۔ اگر درخت پر پھل کی درستی ظاہر ہونے یا سر سبز کھیتی میں دانہ پڑنے سے قبل ہی وہ درخت یا کھیتی اصل (درخت، زمین)کے مالک کو فروخت کی گئی تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ جب یہ دونوں چیزیں اصل کے مالک کو فروخت کی گئیں تو خریدار کو چیز کی ادائیگی مکمل طور پر ہو گئی کیونکہ وہ اصل(درخت یا کھیتی ) کا مالک ہو گیا اور موجود چیز (پھل اور غلہ کا بھی ) لہٰذا بیع صحیح ہو گی۔ واضح رہے اس صورت کے جواز یا عدم جواز میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض علماء اس صورت کو اسی منع کردہ صورت ہی میں شامل کرتے ہیں کیونکہ درخت پر پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل فروخت کرنے کی نہی میں عموم ہے۔ 3۔ درخت پر پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل یا کھیت کے پودوں میں دانہ سخت ہونے سے پہلے اس شرط پر فروخت کرنا کہ پھل بیع کے فوراً بعد کاٹ یا اتار لیا جائےگا تو یہ بھی جائز ہے۔ لیکن یہ تب ہے جب کٹائی کے فوراً بعد پھل سے یا دانے سے کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنا ممکن ہو کیونکہ بیع کے منع کی وجہ پھل کے تلف ہونے کا خوف تھا۔جب فوراً کٹائی یا چناؤ کر لینے سے اندیشہ ختم ہو گیا تو یہ صورت جائز ہوئی، البتہ جب معلوم ہو کہ فوراً کٹائی یا چناؤ کے بعد پھل فائدہ مند نہیں ہو گا بیع ناجائز ہو گی کیونکہ اس صورت میں مال کے ضائع اور برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو ضائع کرنے سے منع کیا ہے۔ جو پھل سال میں متعدد بار کاٹا یا چنا جاتا ہو اس کی موجودہ اور آئندہ چنائی کو( بیک وقت) فروخت کرنا جائز ہے، مثلاً: ترکاری ، ککڑی،بینگن وغیرہ۔ اس میں اگرچہ علماء کا اختلاف ہے لیکن ہمارے نزدیک صحیح قول جواز کا