کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 494
اسلام میں قضا کے احکام قضا کے لغوی معنی" کسی شے کو مضبوط کرنے یا کسی کام کو سر انجام دے کر فارغ ہونے"کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ" "پھر اللہ نے انھیں دو دن میں سات آسمان بنادیا۔"[1] علاوہ ازیں اس لفظ(قضا)کے لغت عرب میں اور بھی معانی ہیں قضا کے شرعی اور اصطلاحی معنی ہیں۔شرعی حکم کو واضح کر کے اسے کسی پر لازم کر دینا اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" قضا (منصف)کی ذمے داری قبول کرنا دینی طور پر واجب اور باعث ثواب ہے۔ یہ سب سے افضل نیکیوں میں شامل ہے۔ اس معاملے میں خرابی اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ بہت سے لوگ اس کے ذریعے سے مال اور چودھراہٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔"[2] قضا کے احکام کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع سے ثابت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰهُ" "آپ ان کے معاملات میں اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی حکم (فیصلہ ) کریں۔"[3] نیز ارشاد ہے: "يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ" "اے دادو! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنا دیا ۔لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو۔"[4] "شرعی حکم واضح کرنا اور اسے نافذ کرنا اور جھگڑوں کے فیصلے کرنا۔"خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے درمیان متعدد فیصلے کیے، نیز اسلامی سلطنت کے مختلف اطراف میں قاضی مقرر کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین نے بھی اس سلسلے کو قائم رکھا۔ شیخ موصوف رحمۃ اللہ علیہ قاضی کے بارے میں مزید فرماتے ہیں:’’وہ فیصلے کے اثرات کے اعتبار سے گواہ ہوتا ہے۔اور امرونہی کے اعتبار سے مفتی ہوتا ہے اور فیصلہ صادر کر کے لازم کردینے کے اعتبار سے صاحب اقتدار کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘[5]
[1] ۔حم السجدۃ41/12۔ [2] ۔الفتاوی الکبری ،الاختیارات العلمیہ، باب القضاء5/555۔ [3] ۔المائدہ:5/49۔ [4] ۔ص:38/26۔ [5] ۔ الفتاوی الکبری، الاختیارات العلمیہ، باب القضاء5/556۔