کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 492
یوم نحر(عید والے دن)میں روزہ رکھنے کی نذر۔ اس قسم کی نذر کو پورا کرنا ہر گز جائز نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "مَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ فَلا يَعْصِهِ " "جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔"[1] بعض اہل علم کے نزدیک ایسی نذر کا کفارہ ادا کرنا ہوگا کیونکہ گناہ کاارتکاب کسی حال میں جائز نہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت حضرت ابن مسعود ، ابن عباس ، عمران بن حصین اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے۔اور اہل علم کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ معصیت کی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی، لہٰذا اس میں کفارہ بھی نہیں۔ائمہ اربعہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رائے کو پسند کیا ہے اور فرمایا ہے:" جس نے قبر یا قبرستان میں یا پہاڑ پر یا درخت پر چراغ جلایا یا اس کے لیے نذر مانی تو جائز نہ ہو گا اور نہ اسے پورا کیا جائے گا بلکہ وہ رقم کسی نیکی کے کام میں خرچ کی جائے گی۔" 5۔ نذر تبرر، یعنی جائز کام کرنے کی نذر ماننا جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو، مثلاً: نماز، روزے، حج وغیرہ کی نذر ماننا۔ وہ مطلق ہو، مثلاً:میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نماز ادا کروں گا یا روزے رکھوں گا، یا کسی شرط کے ساتھ ہو، مثلاً: کوئی کہے: اگر اللہ تعالیٰ نے میرے فلاں مریض کو شفادی تو اتنی رقم اللہ کے راستے میں دوں گا یا اتنی تعداد میں نوافل ادا کروں گا۔ اگر شرط پوری ہو جائے تو نذر کو پورا کرنا لازم ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللّٰهَ فَلْيُطِعْهُ" "جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو وہ اس کی اطاعت کرے۔"[2] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:"يُوفُونَ بِالنَّذْرِ""جو نذریں پوری کرتے ہیں۔"[3] اور فرمان ہے:"وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ""اور وہ اپنی نذریں پوری کریں۔"[4] واللّٰہ اعلم بالصواب۔
[1] ۔۔صحیح البخاری، الایمان ،باب النذر فی الطا عۃ۔۔۔۔۔۔، حدیث 6696۔وسنن ابی داؤد، الایمان ، باب النذر فی المعصیۃ ،حدیث 3289۔واللفظ لہ۔ [2] ۔صحیح البخاری ،الایمان ،باب النذرفی الطا عۃ۔۔۔۔۔، حدیث: 6696۔ [3] ۔الدھر76/7۔ [4] ۔الحج 22/ 29۔