کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 482
"هُوَ كَلَامُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ، كَلَّا وَاللّٰهِ! وَبَلَى وَاللّٰهِ !"
"آدمی گھر میں بیٹھا بات بات پر کہے: نہیں۔ اللہ کی قسم! کیوں نہیں اللہ کی قسم! وغیرہ۔"[1]
اسی طرح ایک شخص نے خود کو سچا سمجھتے ہوئے قسم اٹھائی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ بات اس طرح نہ تھی (تویہ بھی لغو قسم ہی ہے اور اس میں کفارہ نہیں۔)
2۔ قسم اٹھانے والا اپنی مرضی اور اختیار سے قسم اٹھائے ۔ اگر اسےقسم پر مجبور کیا گیا ہو تو قسم منعقد نہ ہو گی ۔ یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"عفي عَنْ أُمَّتِي الخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ"
’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا بھول چوک اور جس پر ان کو مجبور کر دیا جائے معاف کر دیا ہے۔‘‘[2]
3۔ قسم کو اپنے اختیار سے اور جانتے ہوئے توڑ دے۔ اگر اس نے اپنی قسم کو بھول کر توڑا یا اس سے زبردستی قسم تڑوائی گئی تو اس پر کفارہ نہیں کیونکہ یہ گناہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"عفي عَنْ أُمَّتِي الخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ"
"اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا ،بھول چوک اور جبرواکراہ سے درگزر فرمایا ہے۔"[3]
اگر قسم میں کلمہ استثنا کہا گیا ،مثلاً: کسی نے کہا:"اللہ کی قسم!میں یہ کام ضرور کروں گا ان شاء اللہ تعالیٰ "تو اسے کام نہ کرنے کی صورت میں کفارہ نہ پڑے گا بشرطیکہ کلمۂ استثنا قسم اٹھانے کے وقت بولا گیا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"مَنْ حَلَفَ فَقَالَ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ لم يَحْنَث " "جس نے قسم اٹھائی اور ساتھ ان شاء اللہ کہا تو وہ حانث نہ ہوگا۔"[4]
اگر کلمہ استثنا(ان شاء اللہ ) کا مقصد استثنا نہ تھا بلکہ محض تبرک تھا یا ان شاء اللہ کا کلمہ قسم کے متصل بعد نہ بولا گیا ہو بلکہ ایک وقت گزرنے کے بعد کہا گیا تو اس کلمۂ استثنا سے فائدہ اٹھانا درست نہ ہو گا ،البتہ بعض علماء کا قول ہےکہ قسم مکمل کرنے کے بعد اس نے ان شاء اللہ کہہ دیا یا مجلس میں سے کسی نے اسے کہا:ان شاء اللہ کہہ دو اور اس نے
[1] ۔سنن ابی داؤد، الایمان النذور، باب لغو الیمین حدیث 3254 بعد حدیث 3324۔
[2] ۔سنن ابن ماجہ، الطلاق، باب طلاق المکرہ والناسی، حدیث 2045 لیکن ابن ماجہ میں(عفي عَنْ أُمَّتِي) کے بجائے (إِنَّ اللّٰهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي) کے الفاظ ہیں۔ ارواء الغلیل 1/123۔حدیث 82۔
[3] ۔دیکھیے سابقہ حوالہ۔
[4] ۔جامع الترمذی ،النذور والایمان، باب ماجاء فی الاستثناء الیمین، حدیث 1531۔ومسند احمد 2/309واللفظ لہ۔