کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 469
ہمارے دین اسلام نے نہ صرف اسے قائم رکھا بلکہ اس کی مزید تاکید فرمائی ہے اور اس کے بارے میں رغبت دلائی ہے۔دین اسلام نےدس حقوق کا ذکر کرتے ہوئے مسافر کا بھی یہ حق بتایا کہ اس کی مہمان نوازی کی جائے،چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
"وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ "
’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، قرابت دار ہمسائے ، اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی سے اور مسافر سے( بھی نیکی کرو)۔‘‘[1]
نیز ارشاد ہے:
"فَآَتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ"
"لہذا آپ قرابت دار،مسکین اور مسافر ہر ایک کو اس کا حق دیجیے۔"[2]
مزید برآں زکاۃ کے جو آٹھ مصارف سورہ توبہ میں بیان کیے گئے ہیں ان میں مسافر کو بھی شامل کیاگیا ہے۔اللہ تعالیٰ کاشکر ہے جس نے ہمیں ایسا کامل دین اورحکمتوں سے بھرپور شریعت عطافرمائی جوسراسر رحمت ورأفت ہے۔
ذبح کے احکام
خشکی میں رہنے والے جانور کے حلال ہونے کی یہ شرط ہے کہ اسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہوورنہ مردار متصور ہوگا جو حرام ہے۔بنا بریں ہر مسلمان کے لیے ذبح کے شرعی احکام سے معرفت ضروری ہے۔
فقہائے کرام نے کہا ہے کہ جانور کا ذبح کرنا یا اسے نحر کرنا یہ ہے کہ اس کی شہ رگ اور کھانے کی نالی کاٹ کرخون بہایا جائے۔اگر جانوربے قابو ہوتو اسے زخمی کردیا جائے۔
ذکاۃ کے لغوی معنی ہیں"کسی شے کو مکمل کرنا۔"کیونکہ حیوان کو ذبح کرنے کامطلب اس کا خون اچھی طرح بہادینا ہے(حتیٰ کہ اس کی روح نکل جائے) اس لیے اس عمل پرذکاۃ،یعنی ذبح کااطلاق ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
[1] ۔النساء 4/36۔
[2] ۔الروم 30/38۔