کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 468
میں ایسا کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ اس کی شرعاً اجازت ہے۔ 15۔ مسلمان پر اجنبی مسلمان کی ایک دن رات کی مہمانی کرنا واجب ہے بشرطیکہ شہر سے دور کسی گاؤں یا بستی سے اس کا گزر ہو۔اگر شہر ہوتو مہمانی واجب نہیں کیونکہ وہاں ہوٹل وغیرہ عام ہوتے ہیں بخلاف گاؤں کے کہ وہاں ہوٹل وغیرہ کا بندوبست نہیں ہوتا۔ 1۔مذکورہ حالت میں ضیافت کے وجوب کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ ، قَالُوا: وَمَا جَائِزَتُهُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟، قَالَ: يوْمُهُ وَلَيْلَتُهُ " ’’جوشخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسےچاہیے کہ اپنے مہمان کی مہمانی ایک دن رات کے عطیہ کے ساتھ کرے۔انھوں(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول!مہمان کا عطیہ کتنا ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک دن رات۔‘‘[1] یہ حدیث مہمان کی مہمان نوازی کے وجوب پر دلیل ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ: ( مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ ) ہیں۔اور ایمان باللہ کو مہمان نوازی سےمشروط کرنا اس کے وجوب کی دلیل ہے۔صحیحین میں روایت ہے: "إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ" "اگر تم کسی قوم کے ہاں ٹھہرو تو جو مناسب چیزیں تمھیں مہمانی کے لیے دیں اسے قبول کرو اور اگر ایسا نہ کریں تو ان سے خود ہی مہمانی کاحق لے لو۔"[2] 16۔ اس کے بارے میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا وہ واقعہ مشہور ہے جس میں ہے کہ آپ نے اپنے مہمان کی خدمت میں بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا۔یہ واقعہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ضیافت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شریعت میں سے ہے۔اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مہمان کی خدمت میں اس کی ضرورت سے بڑھ کر شے پیش کی جانی چاہیے۔یہ سب کچھ دین ابراہیم علیہ السلام کی اعلیٰ خوبیوں میں سے ایک خوبی تھی اور یہ عمل مکارم اخلاق میں شامل ہے۔
[1] ۔صحیح البخاری الادب باب من کان یؤمن باللّٰه والیوم الآخر فلایؤذ جارہ حدیث 6019۔وصحیح مسلم، اللقطۃ، باب الضیافۃ ونحوھا حدیث 48 بعد حدیث 1726 واللفظ لہ۔ [2] ۔صحیح البخاری ،المظالم، باب قصاص المظلوم اذا وجد مال ظالمہ، حدیث 2461 وصحیح مسلم اللقطۃ باب الضیافۃ ونحوھا،حدیث 1727 واللفظ لہ۔