کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 457
"إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا ﴿١٤٥﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللّٰهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ للّٰهِ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا"
"منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقے میں جائیں گے، ناممکن ہے کہ آپ ان کا کوئی مددگار پائیں ۔ہاں !جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور اللہ پر کامل یقین رکھیں اور خالص اللہ ہی کے لیے دینداری کریں تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں، اللہ تعالیٰ مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔"[1]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین سے ہاتھ روک کررکھا،یعنی سزا نہ دی کیونکہ انھوں نے اسلام کوظاہری طور پر قبول کیا ہواتھا۔
زندیق لوگوں میں سے حلولیہ،اباحیہ ہیں اور جو اپنے متبوع کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دیتے ہیں یاجو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ درجہ معرفت حاصل ہوجانے سے شریعت کے اوامرو نواہی ساقط ہوجاتے ہیں یا وہ کہےکہ معرفت حاصل ہوجانے پر یہود ونصاریٰ کے دین پر عمل کرنا جائز ہوجاتاہے تو ایسے شخص کا بھی یہی حکم ہے۔
(12)۔اہل علم میں اس مسئلے پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر کوئی باشعور بچہ جس کا مسلمان ہونا درست ہے ،اسی طرح اس کا مرتد ہونا صحیح ہے کہ نہیں تو ایک قول یہ ہے کہ اس کا ارتداد ثابت ہوگا بشرطیکہ ارتداد کے کسی سبب کامرتکب ہوا ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کا اسلام معتبر ہے اس کاارتداد بھی شمار ہے۔لیکن اسے فوری طور پر قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ جب وہ بالغ ہوگا تب اس سے توبہ کامطالبہ کیاجائےگا اور اس کو تین دن تک مہلت دی جائےگی۔اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کی جائےگی ورنہ قتل کی سزا دی جائے گی۔
(13)۔ایک شخص نماز کی فرضیت کا اقرارکرتاہے لیکن سستی وکوتاہی کی وجہ سے ادا نہیں کرتا تو اس کے بارے میں بھی اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتاہے۔صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ شخص بھی کافرہے کیونکہ ارشاد نبوی ہے:
" بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاةِ"
"مسلمان بندے اور اس کےکفر کےدرمیان حد فاصل ترک نماز ہے۔"[2]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ "
[1] ۔النساء:4/145۔146۔
[2] ۔سنن ابی داود، السنۃ، باب فی رد الارجاء، حدیث 4678۔