کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 455
قراردیا گیا تھا۔
(8)۔مرتد کے پاس جو مال ہوگا اسے اس کےتصرفات سے روک دیاجائے گا کیونکہ اس کے ساتھ دیگر مسلمانوں کے حقوق متعلق ہیں جیسا کہ مفلس شخص کو مال کے تصرف سے روک دیاجاتاہے(جب اس پر قرضوں کا بوجھ ہو۔)مرتدکے مال سے مسلمانوں کے قرضے ادا کیے جائیں گے۔اسی طرح مرتد ار اس کے اہل وعیال پر اسی کا مال خرچ کیا جائےگا جب تک اسے تصرف سے روکا ہواہے۔اگر مرتد دوبارہ اسلام قبول کرلے تو اس کے مالی تصرف کو بحال کر دیاجائے گا۔اگر وہ حالت ارتدادمیں مرگیا یا اسے سزا کے طورپر قتل کردیاگیا تو اس کا مال"مال فی" قراردے کر بیت المال میں جمع کرلیاجائےگا کیونکہ شرعاً اس کا کوئی وارث نہیں رہا۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
" لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ "
"مسلمان کافر کااورکافر مسلمان کاوارث نہ ہوگا۔"[1]
اسی طرح وہ لوگ بھی اس کے وارث نہیں ہوں گے جن کامذہب اس نے اختیار کیا ہے کیونکہ اسے اس کفریہ مذہب پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔
(9)۔جس شخص نے اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اس کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟اس کے بارے میں علماء کی دورائے ہیں:
1۔ دنیاوی احکام میں اس کارجوع قبول نہ ہوگا بلکہ اسے قتل کرناواجب ہوگا،نہ وہ کسی کاوارث ہوگا اور نہ اس کاکوئی وارث ہوگا کیونکہ اس کے اس قدر بڑے گناہ، عقیدے میں فساد اور اللہ تعالیٰ کی ذات کومعمولی سمجھنے کایہ تقاضا ہے کہ اسے بہرحال قتل کردیا جائے۔
2۔ اس کا رجوع قبول ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
"قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ"
"آپ ان کافروں سے کہہ دیجیے کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہوچکے ہیں سب
[1] ۔صحیح البخاری، الفرائض، باب لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم۔۔۔حدیث 6764۔ ارتداد سے متعلقہ احکام میں سے ایک یہ ہے کہ مرتد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی،اگرعدت ختم ہونے سے پہلے توبہ کرلے تو اس کی بیوی اسے واپس مل جائے گی اور اگر عدت ختم ہوگئی اور اس نے توبہ نہ کی تو وہ اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائےگی اور اس فسخ نکاح کااعتبار اس کے ارتداد کے دن سے ہوگا۔اسی طرح اگر ردت(ارتداد) دخول سے پہلے واقع ہوتوپھر بھی نکاح فسخ ہوگا۔