کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 454
"تم نے تین دن تک اسے مہلت کیوں نہیں دی؟اسے روزانہ ایک روٹی کھانے کو دیتے اور توبہ کا موقع دیتے تو شاید وہ توبہ کرلیتا،پھر فرمایا:اے اللہ! میں اس موقع پر موجود نہ تھا اور نہ میں نے اس کا حکم دیاتھا،مجھے اب خبر ملی ہے اور میں اس کام پر راضی بھی نہیں ہوں۔"[1]
مرتد کوتوبہ کے لیے مہلت دینے میں حکمت یہ ہے کہ بسا اوقات ارتداد کا سبب کوئی شبہ ہوتاہے جو فوراً زائل نہیں ہوتا،لہذا حقیقت حال واضح ہونے کے لیے ایک مدت درکار ہے۔باقی رہی وجوب قتل کی دلیل تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ " "جو(مسلمان) اپنا دین بدل دے اسے قتل کردو۔"[2]
(5)۔مرتد کو قتل کرنے کی ذمے داری حاکم یا اس کے نائب پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس کا قتل اللہ تعالیٰ کا حق ہے جو حاکم ہی وصول کرسکتاہے۔
(6)۔مرتد کوقتل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جب اس نے حق کواچھی طرح جان پہچان کرقبول کیا تو اب اس کے ترک کامقصد زمین میں فساد پھیلانا ہے،لہذا اس شخص کا زندہ رہنادرست نہیں۔وہ ایک انسانی معاشرے کا فاسدعضو ہے،لہذا اس کازہر پھیلنے سے قبل ہی الگ کردینا ضروری ہے۔
(7)۔اگر مرتد کلمہ شہادت کا پھر سےاقرار کرلے تو اس کا رجوع ثابت ہوجائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
"أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لا إلَهَ إلا اللّٰه، فَإذَا قَالُوا: لا إلَهَ إلا اللّٰه عَصَمُوا مِنِّي دِماءَهُمْ وَأمْوَالَهُمْ؛ إلا بِحَقّها"
"مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں(کافروں) سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالٰہ الاللہ کا اقرار کرلیں،جب انھوں نے لاالٰہ الاللہ کا اقرار کرلیا تو اپنا خون اور مال محفوظ کرلیا سوائے اسلام کے حقوق کے۔"[3]
اگر کسی شخص کے ارتداد کا سبب کلمۂ شہادت کے علاوہ کسی ایسے حکم کا انکار ہے جو ضروریات دین میں سے ہے تو اس کی توبہ تب تسلیم ہوگی جب وہ کلمۂ شہادت کے ساتھ اس خاص امرکا اقرارکرےگا جس کے انکار سے اسے مرتد
[1] ۔الموطا للامام مالک،الاقضیۃ، باب القضاء فیمن ارتد عن الاسلام، حدیث 1479۔
[2] ۔صحیح البخاری، الجھاد ،باب لا یعذب بعذاب اللّٰه،حدیث:3017۔
[3] ۔صحیح البخاری، الاعتصام ،باب قول اللّٰه تعالیٰ:(وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ)معلقا وصحیح مسلم الایمان باب الامر بقتال الناس حتی یقولوا:لاالٰہ الااللّٰه ۔۔۔حدیث:21۔