کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 449
3۔ اگران میں سے کوئی گرفتار ہوتو اسے قید میں رکھا جائے حتیٰ کہ فتنے کی آگ بجھ جائے۔ 4۔ ان کے اموال کو غنیمت نہ قراردیا جائےبلکہ ان کے اموال بھی دوسرے مسلمانوں کے اموال کی طرح(قابل احترام) ہیں کیونکہ ان پر ان کی ملکیت ختم نہیں ہوئی۔لڑائی ختم ہوجانے اورفتنے کی آگ بجھ جانے کے بعد اگر ان کا مال کسی کے قبضے میں پایا جائے تو اسے لے کر اصل مالک کو لوٹادیا جائے اور اگر وہ ضائع ہوگیا تو اس کا ضمان نہ ہو گا۔فریقین کی لڑائی میں جو مارا گیا اس کی دیت بھی نہ ہوگی۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فتنوں نے سراٹھایا تو ان کی سرکوبی کی گئی۔وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ کسی فتنہ باز کےقتل ہونے کی صورت میں اس کی دیت نہیں دی جائے گی اور نہ قرآنی آیات کی(غلط) تاویل کرکے ان کا مال غنیمت سمجھا جائے مگرجو مال باغیوں نے چھینا تھا اگر وہ بعینہ واپس مل گیا تو اسے لے کر مالک کو دے دیا جائے۔"[1] (4)۔اگر مسلمانوں کے دو گروہوں میں لڑائی چھڑ جائے،ان میں سے کوئی بھی امام المسلمین کی اطاعت میں نہ ہو بلکہ لڑائی کی بنیاد باہمی عصبیت ہویا اقتدار کی خاطر جنگ ہوتو دونوں گروہ ظالم ہیں کیونکہ ہر گروہ دوسرے پرزیادتی کررہا ہے اور کسی میں کوئی خصوصیت اور امتیاز نہیں رہا جو اس کے حق پر ہونے کی واضح علامت ہو۔ایسی صورت میں ہر گروہ دوسرے کے نقصان کا ضامن ہوگا۔اگر ایک گروہ امیر کے حکم سے لڑرہا ہوتو وہ حق پر سمجھا جائے گا،دوسرا باغی قرار پائے گا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ (5)۔اگر کوئی گروہ خوارج کے عقائدرکھتا ہو،مثلاً:کبیرہ گناہوں کےمرتکب کو کافر کہنا،مسلمانوں کی خونریزی کو جائز سمجھنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینا تو وہ بھی باغی،فاسق اور خوارج ہوں گے۔اگر وہ امیر کی اطاعت کے دائرے سے نکل جائیں گے تو ان سے قتال واجب ہوگا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"خوارج کے بارے میں اہل سنت متفق ہیں کہ وہ بدعتی گروہ ہے۔نصوص شرعیہ ان سے قتال کرناواجب قراردیتی ہیں۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ان سے قتال کرنے پر اتفاق تھا۔علمائے اہل سنت کا بھی یہی مسلک ہے کہ عادل حکمرانوں کے ساتھ مل کران(خوارج) سے لڑائی لڑی جائے گی۔اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ ظالم حکمرانوں کے ساتھ مل کر بھی ان سے لڑنا جائز ہے یانہیں؟بعض اہل علم سے منقول ہے کہ ان(ظالم حکمرانوں) کے ساتھ مل کر لڑنا بھی جائز ہے۔اسی طرح معاہدین میں سے کوئی اپنا عہد توڑے تو ان
[1] ۔السنن الکبریٰ للبیہقی 8/174۔175۔