کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 448
نفاذ ہو،حقوق کی ادائیگی ہو،نیکی کا حکم ہو اور بُرائی سے روکا جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" جاننا چاہیے کہ لوگوں کے امور کی سربراہی واجبات دینیہ میں سے ایک اہم دینی فریضہ ہے بلکہ دین ودنیا کا قیام اسی کے ساتھ ہوتا ہے۔بنی آدم کے مصالح ،منافع اور فوائد یقیناً آپس میں مل کر رہنے ہی سے پورے ہوتے ہیں اور اجتماعیت میں امیر وسربراہ کا ہوناضروری ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر جیسے چھوٹے اور عارضی اجتماع میں بھی ایک شخص کو امیر بنانا واجب قراردیا ہے جس سے مختلف قسم کے اجتماعات پررئیس یا امیر بنانے کی تنبیہ ہوتی ہے۔"[1]
معلوم ہونا چاہیے کہ لوگ امیر وحاکم کے بغیر درست نہیں رہ سکتے۔اگر کوئی ظالم حکمران بن جائے تو وہ بغیر حاکم وامیر زندگی گزارنے سے بہتر ہے،جیسے کہاجاتاہے :ظالم امیر کے تحت سال گزارنا امیر کےبغیر ایک رات گزارنے سے بہتر ہے۔
(2)۔اگر کوئی جماعت مشتبہ امور کا غلط معنی کرکے مسلمانوں کے امیر کے خلاف خروج(بغاوت) کرتی ہے،اس کی اطاعت سے دستکش ہوجاتی ہے یا اس کی مخالفت کرتی ہے،اتحاد کی قوت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ ظالموں اور باغیوں کی جماعت ہے۔مسلمانوں کے امیر کو چاہیے کہ اس سے مراسلت(مذاکرات) کرے اور پوچھے کہ اس سےکیا شکایت ہے اور اس کا کیاقصور ہے؟اگر وہ کسی ظلم وزیادتی کی شکایت کریں تو وہ اس کاازالہ کرے،اگر کوئی غلط فہمی ہوتو اسے دور کرے حتیٰ کہ وسعت ظرفی اور سنجیدگی سے صلح کی پوری کوشش کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا" "ان(دونوں) میں میل ملاپ کرادیا کرو۔"[2]
صلح اور اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ اگر باغی لوگ امیر پر ایسا کام کرنے کاالزام لگاتے ہیں جس کا کرنا شرعاً جائز نہیں تو امیر کو چاہیے کہ اس کا ازالہ کرے اور اگر اس کام کاکرناجائز ہوتو فریق مخالف کو دلائل سے قائل کرے اور حقیقت حال کو واضح کرے۔اگر باغی گروہ رجوع کرلے،حق کی طرف پلٹ آئے اور اطاعت امیر پر آمادہ ہوجائے تو چھوڑدے۔اگر وہ دلائل شرعیہ کو سن کر بھی رجوع نہ کریں تو ان سے جنگ کرنا ضروری ہے۔اس کی رعایا کو چاہیے کہ اس سے بھر پور تعاون کریں حتیٰ کہ ان کے شرکا خاتمہ ہوجائے اور فتنے کی آگ بجھ جائے۔
(3)۔باغیوں سے قتال کے وقت درج ذیل امور کا لحاظ رکھاجائے:
1۔ ان پر ایسی چیز سے حملہ نہ کیا جائے جو اجتماعی ہلاکت کا باعث ہو،مثلاً :تباہ کن میزائل یا بم نہ پھینکے جائیں۔
2۔ ان کے بچوں ،پشت پھیر کر بھاگنے والوں اور زخمیوں کو یاجو لڑنا نہیں چاہتے،قتل کرنا حرام ہے۔
[1] ۔مجموع الفتاویٰ 28/390۔
[2] ۔الحجرات 49/9۔