کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 447
نیز فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"مَنْ خَرَجَ عَلَى أُمَّتِي وَهُمْ جَمِيعٌ، فَاقْتُلُوهُ كَائِنًا مَا كَانَ"
"جو شخص میری اُمت کے خلاف اس وقت خروج کرے جب وہ متفق ہوچکی ہو تو اس کی گردن تلوار سے اڑا دو چاہے جو بھی ہو۔"[1]
باغیوں سے قتال کے بارے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ہی رائے تھی ،ان میں اختلاف نہ تھا۔
(1)۔"بغاوت" زیادتی ،ظلم اور راہ حق سےہٹ جانے کا نام ہے،لہذا باغی وہ لوگ ہیں جو زیادتی کرنے والے،ظالم اور راہ حق کوچھوڑنے والے ہیں اور مسلمان امراء کے احکام اورنظام کی مخالفت کرنے والے ہیں،لہذا مسلمانوں کی ایک جماعت اور ایک امام کاہونا ناگزیر ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
" وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا "
"اللہ(تعالیٰ) کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔"[2]
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"
"اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔"[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللّٰهِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ تَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ"
"میں تمھیں اللہ سے ڈرنے اور سمع وطاعت کے بجالانے کا حکم کرتا ہوں اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام امیر بن جائے۔"[4]
درج بالاآیات اور احادیث میں جو کچھ بیان کیاگیا ہے وہ ایسے امور ہیں جو انسانی معاشرے کی اجتماعیت کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں تاکہ ان کی شیرازہ بندی قائم رہے،ملک کی حفاظت اوراس کا دفاع آسان ہو اور حدود کا
[1] ۔صحیح مسلم ،الامارۃ ،باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلیفۃ الاول فالاول ،حدیث 1844 وکتاب السنۃ لابن ابی عاصم ،ص 519 حدیث 1107 واللفظ لہ۔
[2] ۔آل عمران 3/103۔
[3] ۔النساء4/59۔
[4] ۔سنن ابی داود السنۃ باب فی لزوم السنۃ حدیث 4607 وجامع الترمذی العلم باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدعۃ حدیث 2676 علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے اس روایت کے تمام طرق دیکھے ہیں لیکن مجھے (وَإِنْ تَأَمَّرَ) کے بجائے( وَإِنْ عبدًا حبشيًّا) کے الفاظ ہی ملے ہیں جیسا کہ سنن ابوداود اور جامع ترمذی میں ہے۔