کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 445
آپ نے فرمایا:تو بھی اس سے لڑائی کر۔اس نے کہا:اگر وہ مجھے قتل کردے تو؟آپ نےفرمایا:تو شہید ہوگا ۔اس نے کہا:اگر میں اسے قتل کردوں تو؟آپ نے فرمایا:وہ جہنم میں جائے گا۔"[1]
یاد رہے ا پنی ذات یا عزت کا دفاع تب لازم ہے جب یہ دفاع کسی بڑی خرابی کاموجب نہ بنے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ " "اوراپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔"[2]
اگر کسی مسلمان شخص کی ذات یا اس کی عزت پرحملہ ہوتواس کی طرف سے دفاع کرنا یادفاع میں تعاون کرنا لازم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
"انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا" "اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم۔"[3]
واضح رہے ظالم کے ساتھ تعاون اس کو ظلم سے روکنا ہے۔
(7)۔جب کوئی چور کسی کے گھر داخل ہوجائے تو وہ بھی حملہ آور کے حکم میں ہے جس کا مناسب اور کم نقصان دہ طریقے سے دفاع کیا جانا چاہیے۔
(8)۔جو شخص دروازے کے سوراخ سے یا کھڑکی سے یا اپنی چھت پر چڑھ کر کسی کے گھر میں دیکھے تو اسے روکا جائے۔اگر اس نے دیکھنے والے کی آنکھ کوئی چیز مار کر پھوڑدی تو اس پر ضمان وتاوان نہ ہوگا کیونکہ حدیث میں ہے:
" مَنِ اطَّلَعَ فِي بَيْتِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، فَفَقَأُوا عَيْنَهُ، فَلَا دِيَةَ لَهُ، وَلَا قِصَاصَ "
"جس نے کسی غیر کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر جھانک کردیکھا،اگر انھوں نے اس کی آنکھ پھوڑدی تواس کے لیے نہ دیت ہے اور نہ قصاص۔"[4]
یہ مذکورہ شرعی احکام مسلمان کی ذات ،اس کے مال کی حرمت اور اللہ کے نزدیک اس کی عزت وکرامت کے سبب ہیں۔یہ اسلام کاعدل وانصاف ہے جس میں معاشرے کی حفاظت اور اس کی مصلحتوں کی حفاظت مقصود ہے تاکہ شہر آباد رہیں،بندوں کے لیے امن وسکون قائم رہے اور دن ہو یا رات لوگ امن وآشتی سے زمین پر چلیں پھریں۔
انسانیت کی اصلاح اس حکیمانہ شریعت کے نفاذ ہی سے ممکن ہے کیونکہ انسان کے خود ساختہ تمام قوانین اور مادی طاقتیں مطلوبہ امن کے حصول میں بالکل ناکام ہوچکی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
[1] ۔صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی من قصد اخذ مال غیرہ بغیر حق۔۔۔۔ حدیث 140۔
[2] ۔البقرۃ:2/195۔
[3] ۔صحیح البخاری، المظالم، باب اعن اخاک ظالما او مظلوما، حدیث 2443۔
[4] ۔سنن النسائی، القسامۃ، باب من اقتص واخذ حقہ دون السلطان، حدیث 4864۔