کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 442
"إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٣٣﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ "
"ان کی سزا جو اللہ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں یہی ہے کہ وه قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا جلاوطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے ۔ ہاں! جو لوگ اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پالو تو یقین مانو کہ اللہ بہت بڑی بخشش اور رحم و کر م والاہے۔"[1]
(1)۔آیت میں مذکور محاربین سے مراد وہ لوگ ہیں جو زمین میں فساد وبگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔راستوں میں ناکے لگاکر لوگوں کولوٹتے ہیں۔صحراؤں یاشہروں میں لوگوں کے آڑے آتے ہیں۔چوری نہیں بلکہ علی الاعلان لوگوں کا مال اٹھاتے اورچھینتے ہیں۔
(2)۔ایسے شخص پر حد تب لگے گی جب بقدر نصاب سرقہ مال چھین لے یا اسے محفوظ جگہ سے ا ٹھالے یا کسی قافلے میں موجود آدمی سے مال چھین لے،نیز اس کی ڈاکہ زنی اس کے اقرار سے ثابت ہویادو قابل اعتماد آدمیوں کی گواہی مل جائے۔
(3)۔ڈاکہ زنی کرنے والوں کی سزا ان کے جرائم کی نوعیت کے مختلف ہونے کے سبب مختلف ہے:
1۔ جس نے ڈاکہ زنی میں قتل کیا اور مال اٹھایا اسے لازماً قتل کیا جائے گا اور صلیب پر سرعام لٹکایا جائےگا تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔اس سے درگزر قطعاً جائز نہیں۔علامہ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق اس مسئلے پر علماء کا اتفاق ہے۔
2۔ جس نے محض قتل کیا اور مال نہ اٹھایا اسے صرف قتل کیا جائے گا صلیب پر لٹکانے کی ضرورت نہیں۔
3۔ جس نے صرف مال اٹھایا لیکن مال کے مالک کو قتل نہیں کیا اس کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کا ٹا جائے گا اور پھر اس کا خون بند کرنے کے لیے مرہم پٹی کرکے اسے چھوڑ دیا جائے گا۔
[1] ۔المائدۃ 5/33۔34۔