کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 441
مجرم کاہاتھ کاٹنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کا اعتراف صاف اورواضح الفاظ میں ہو،حتیٰ کہ اس میں کوئی شک وشبہ اور احتمال باقی نہ رہے۔ممکن ہے اس نے جس صورت میں مال اٹھایا ہو اس کے بارے میں وہ سمجھتا ہو کہ اس سے اس کاہاتھ کاٹنا لازمی ہے اور وہ ہاتھ کاٹنے والی صورت نہ ہو،نیز حاکم کو مذکورہ شرائط کی موجودگی یاعدم موجودگی کا علم بھی ہونا چاہیے۔
جس شخص کا مال چوری ہو اس پر لازم ہے کہ معلوم ہونے کے بعد چور سے اپنےمال کی واپسی کا مطالبہ کرے۔اگر وہ ایسا نہ کرے گا توچور کا ہاتھ کاٹنا لازمی نہ ہوگا کیونکہ وہ مال مالک کےمباح کردینے سے ملزم پر مباح ہوجائے گا۔جب اس سے مطالبہ ہی نہ ہوگا تو احتمال ہوگا کہ اس نے چور کووہ مال لے لینے کی اجازت دے دی ہے اور یہ شبہ حد کے نفاذ سے مانع ہے۔
(5)۔جب مذکورہ شرائط اور تقاضے مکمل ہوجائیں تو مجرم کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت میں ہے:
"فَاقْطَعُوا أَيْمَانهمَا" ’’دونوں(مرد یا عورت) کے دائیں ہاتھ کاٹو۔‘‘[1]
دایاں ہاتھ کلائی کے جوڑ سے کاٹا جائے گا کیونکہ یہی حصہ چوری کے لیے آلہ ثابت ہواتھا،لہذا اس کی سزا یہی ہے کہ اسے ختم کردیا جائے۔کلائی کےجوڑے سے کاٹنے پر اکتفا اس لیے کیا گیا ہے کہ کلمہ"ید" کو جب مطلق طور پر استعمال کیا جائے تو ہاتھ اسی حد تک مراد ہوتا ہے۔ہاتھ کاٹنے کے بعد زخم کامناسب علاج کیا جائے گا تاکہ خون بند ہوجائے۔ایسا نہ ہوکہ اس کے سبب موت واقع ہوجائے۔
ڈاکہ زنی کی حد کا بیان
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی زمین پر مسلمان اپنے باہمی مصالح اور منافع کے تبادلے،اموال میں اضافے،ایک دوسرے سے صلہ رحمی ،نیکی اور تقوے میں مل کر تعاون کرنے کے لیے امن وسکون سے چلیں پھریں،بالخصوص حج کے سفر میں ایک دوسرے کی مصلحتوں کا خیال رکھیں۔محبت وپیار سے رہیں تاکہ حج اورعمرے جیسی اہم عبادات کو بہتر انداز سے ادا کرسکیں۔
جوشخص مسلمانوں کی زندگی میں مشکلیں پیدا کرتا ہے ،ان کی راہیں مسدود کرتا ہے،سفروں میں خوف وہراس پھیلاتا ہے تو ایسے شخص کو روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سخت سزا(حد) مقرر کی ہے،چنانچہ ارشاد ہے:
[1] ۔تفسیر الطبری، المائدۃ 5/38۔رقم 9308۔