کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 439
حرمت نہیں،اس میں ہاتھ کے کاٹنے کا حکم بھی نہیں،مثلاً:لہوولعب کے آلات ،شراب ،خنزیر اور مردار وغیرہ۔اگر وہ جائز مال ہے لیکن قابل حرمت نہیں تو اس میں بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم نہیں،مثلاً:حربی کافر کامال ،ایسے شخص کے مال پر قبضہ کرنا بلکہ اسے قتل کردینا بھی جائز ہے۔
3۔چوری کردہ مال مقررہ نصاب کے برابر ہوجو اسلامی تین درہم یا اسلامی دینار کاچوتھا حصہ ہے یااس کی قیمت کے برابر موجودہ کرنسی ہو یاچوری کردہ ایسا سامان یا چیز ہوجس کی قیمت مذکورہ نصاب کے برابر ہوکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"لا تُقْطَعُ اليَدُ الا فِي رُبْعِ دِينَارٍ فما فوقه"
"دینار کے چوتھے حصے سے کم چوری میں کسی کاہاتھ نہ کاٹا جائے۔"[1]
واضح رہے اس وقت(عہد نبوی میں) دینار کی چوتھائی تین درہم کے برابرتھی۔
(3)۔ چور کاہاتھ کاٹنے کے لیے درج بالا نصاب مقرر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ مال کی یہ مقدار ایک دن گزارنے کے لیے درمیانے درجے کی معیشت والے شخص اور جن افراد کانان ونفقہ اس کے ذمے ہے ان کی کفالت کے لیے یہ رقم ایک وقت کے لیے کفایت کرجاتی ہے۔
(4)۔ذراغور کریں! جس ہاتھ کی قیمت پانچ سودینارتھی وہ ہاتھ دینار کے چوتھے حصے کے بدلے میں کاٹ دیا گیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ امین تھاتو قیمتی تھا، جب وہ خیانت کا مرتکب ہوا تو بےوقعت ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ بعض ملحد لوگوں،جیسے معری وغیرہ نے چور کی سزا پر اعتراض کرتے ہوئے کہاہے:
يدٌ بِخَمْسِ مِئِين عَسجد فُديت
ما بالها قُطّعت في ربع دينارِ
’’جس ہاتھ کی قیمت(بصورت دیت) پانچ سو دینار تھی تعجب ہے کہ وہ دینار کے چوتھے حصے کے عوض کاٹ دیا گیا۔‘‘
بعض علماء نے اس اعتراض کا یوں جواب دیا ہے:
عز الأمانة أغلاها وأرخصها
ذل الخيانة فأفهم حكمة الباري
"نادان! باری تعالیٰ کی حکمت کو سمجھ! دیانتداری کی عزت نے اسے نہایت قیمتی بنایا تھا لیکن خیانت کی رسوائی نے اسے سستا اور بے وقعت کردیا۔"
[1] ۔صحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ ونصابھا، حدیث 1684۔