کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 437
کے مطابق ہے بلکہ اس کے اجزاء میں سے ایک جز ہے،اسے سیاست کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ موجودہ دور کی یہ اصطلاح ہے ورنہ یہ شریعت ہی ہے۔[1]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشکوک شخص کو قید میں رکھا اور شک کی بنیاد پر ایک شخص کو سزا دی کیونکہ وہ قرائن سے مجرم ثابت ہورہاتھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ شعبدہ باز لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں:"سانپ پکڑنے والا یا آگ میں داخل ہونےوالا یاجو شخص اس قسم کی شعبدہ بازی کرتا ہے،قابل تعزیر ہے۔"[2]
(8)۔جو شخص کسی مسلمان کو "مُسلا" کہہ کر تکلیف دیتا ہے یا کسی ذمی کوکہتاہے :حاجی صاحب!یا جو شخص کسی مزار اور عرس وغیرہ سے آنے والے کو حاجی کہتا اور سمجھتا ہے تو وہ قابل تعزیر ہے۔
(9)۔اگر کسی مدعی نےاپنے دعوے کے ذریعے سے مدعاعلیہ کوتکلیف پہنچائی،پھر معلوم ہوا کہ مدعی جھوٹا تھا تووہ تعزیر کے لائق ہے،نیز اس نے ظلم کرکے جو کچھ لیا تھا وہ شے یا اس کے عوض اسے تاوان دیناہوگا کیونکہ وہ ظلم کاسبب بنا ہے۔
چوری کی حد کا بیان
کسی مال کا خفیہ طور پر اس طرح اٹھانا کہ مالک یا اس کے نائب کو خبر تک نہ ہو۔ اگر مال اٹھانے والااسلامی احکام کا تابع مسلمان(یا ذمی) ہو اور وہ مال اس قدر ہو کہ مقرر نصاب تک پہنچ جائے اور وہ مال کسی محفوظ جگہ سے اٹھایاگیا ہو،یعنی شارع عام پر پڑا نہ ہو اور مالک ایسا ہو کہ اس کامال اٹھانے والے کو اس میں اپنے استحقاق کاشبہ نہ ہو۔یہ شرائط جمع ہوں تو یہ چوری ہوگی جس کی بناپر ہاتھ کاٹاجائےگا۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ"
"چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیاکرو۔یہ بدلہ ہے اس کا جو انھوں نے کیا(اور) عذاب اللہ کی طرف سے(ہے) اور اللہ قوت وحکمت والاہے۔"[3]
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
[1] ۔ اعلام الموقعین 4/349۔350 بتصرف۔
[2] ۔الفتاویٰ الکبریٰ ،الاختیارات العلمیۃ ،الحدود 5/534۔
[3] ۔المائدۃ:5/38۔