کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 435
(1)۔دین اسلام میں تعزیر ہر اس معصیت پر واجب ہوتی ہے جس کے ارتکاب سے حد اور کفارہ لازم نہیں آتا۔وہ کسی حرام کام کرنے کے سبب ہو یا اس سے واجبات کاترک لازم ہو۔تعزیر میں مظلوم کی طرف سے سزا کا مطالبہ ضروری نہیں۔حاکم اس کے مطالبے کے بغیر بھی ظالم کو سزا دے سکتا ہے۔تعزیر کا نفاذ یااس میں کمی وبیشی حاکم کی صوابدید پر ہوگی کیونکہ جرائم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے،کوئی جرم بڑا ہوگا تو کوئی چھوٹا۔
(2)۔درست بات یہی ہے کہ تعزیر میں کوئی متعین حد بندی نہیں ہوتی لیکن جب معصیت اس قسم کی ہو جس کی شریعت نے سزا مقرر کی ہے،مثلاً: زنا اور چوری تو اس میں حد سے کم درجے کے جرم کی تعزیر حد تک نہیں پہنچے گی۔
(3)۔اگر کسی مصلحت کا تقاضا ہوتو تعزیر میں قتل کی سزا بھی دی جاسکتی ہے،مثلاً:جاسوس کو قتل کرنا یا ایسے شخص کو قتل کرنا جو مسلمانوں کی جماعت میں انتشار وافتراق کا سبب بن رہا ہو یا کوئی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی طرف لوگوں کو دعوت دےرہا ہو یاکوئی اور جرم ہو جس کا علاج قتل کیے بغیر نہ ہوسکے تو اس صورت میں تعزیر کے طور پر قتل کرنا درست ہوگا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:’’یہ قول عدل وانصاف پر مبنی ہے۔اس پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت دلالت کرتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے بیوی کی اجازت سے جماع کیا تھا۔‘‘[1]
سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے ایک مرد اور ایک عورت کو سوسو کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا جو ایک ہی لحاف اوڑھے ہوئے پائے گئے تھے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صبیغ کی سخت پٹائی کی تھی(واضح رہے صبیغ ایک شخص تھا جو قرآن کے متشابہات کے بارے میں باتیں کرکے لوگوں میں دین کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرتا تھا۔"[2]
شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" جب فساد کو روکنا مقصود ہو اوروہ قتل ہی سے ممکن ہوتو قتل کرنا جائز ہے،مثلاً:اگر کوئی شخص ایک قسم کے بگاڑ وفساد کا موجب بن رہا ہو حتیٰ کہ مقررہ حدود کے لگانے سے بھی باز نہیں آرہا تو اس کی سزا قتل ہی ہے ،جیسے حملہ آور کواگر قتل کیے بغیر روکنا ممکن نہ ہوتو اسے قتل کرنا جائز ہوتا ہے۔"[3]
(4)۔کم از کم تعزیر کی کوئی حد بندی نہیں کیونکہ جرائم کی نوعیت احوال واوقات کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے،کوئی جرم شدید ہوتا ہے کوئی کم درجے کا،لہذا ایسے جرائم کی سزا کا تعین حاکم اپنے اجتہاد سے ضرورت اور مصلحت کے
[1] ۔دیکھئے :سنن ابی داود، الحدود، باب فی الرجل یزنی بجاریۃ امراتہ ،حدیث 4451 وجامع الترمذی، الحدود، باب ماجاء فی الرجل یقع علی جاریۃ امراتہ ،حدیث 1451۔
[2] ۔مجموع الفتاویٰ 28/108۔
[3] ۔الفتاویٰ الکبریٰ، الاختیارات العلمیۃ، الحدود: 5/530۔