کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 43
1۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اہل ایمان کہہ کر پکارا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ سود کا لین دین ایک مومن شخص کے شایان شان نہیں۔ "اتَّقُوا اللّٰهَ"کے کلمات اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ سود کالین دین کرنے والا اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف نہیں رکھتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان:(وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا) "جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو۔"میں سود چھوڑنے کا حکم ہے جو وجوب کا متقاضی ہے۔اس سے واضح ہوا کہ سودی معاملہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔ 4۔ جو شخص سودی لین دین ختم نہیں کرتا،اللہ کی طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے جیسا کہ اللہ کافرمان ہے: "فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ " "اگر تم(سود) نہیں چھوڑتے تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیارہوجاؤ۔" 5۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان:"فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ" "چنانچہ تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے،نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔"سے صراحت ہوتی ہے کہ سود خور شخص ظالم ہے۔ قرضہ دے کر اس پر منافع لینا بھی سودی معاملات میں شامل ہے۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کسی کو اس شرط پر قرضہ دیا جائے کہ جب وہ قرضہ واپس کرے گا تو قرضے کی رقم سے زیادہ دے گا یا وہ اتنے فیصد بڑھا کر قرضے کی رقم کے ساتھ ادا کرے گا جیسا کہ آج کل بینکوں میں ہورہا ہے۔ بینک کا وجود اس نظام پر قائم ہے کہ بینک ضرورت مندوں،تاجروں،کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالکان،ہنر مندوں اور پیشہ وروں کو اس شرط پر قرضے کی رقم دیتاہے کہ قرضہ لینے والا قرض کی رقم پر اتنے فیصد نفع بھی بینک کو ادا کرے گا۔اگر مدت معینہ کے اندر وہ قرض کی رقم کی قسط ادا نہ کرے گا تو اتنے فیصد نفع کی رقم مزید بڑھ جائے گی۔یہ سراسر سود ہے جس میں سود کی دونوں ہی صورتیں(جو پیچھے گزرچکی ہیں) جمع ہوجاتی ہیں۔ بینکوں کے سودی نظام اور معاملات میں سے ایک سودی نظام بچت کھاتہ(سیونگ اکاؤنٹ) بھی ہے،یعنی اگر کوئی شخص اپنی رقم مقررہ مدت کے لیے بینک میں رکھتا ہے تو بینک اسے پوری مدت تک اپنے استعمال میں لاتا ہے اور امانت رکھنے والے(کھاتہ دار) کو دس یا پانچ فیصد نفع(سود) دیتا ہے۔