کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 412
انصار نے جب یہودیوں کی قسمیں قبول نہ کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اب مدعا علیہ پر خون کے اثبات کی کوئی صورت نہیں رہی،لہذا یہ تاوان بیت المال پرپڑے گا تاکہ معصوم جان کا خون رائیگاں نہ جائے۔ (1)۔فقہائے کرام کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ جب قسامت کی تمام شرائط مکمل ہوجائیں ،نیز مقتول کے ورثاء پچاس قسمیں اٹھائیں تو مدعا علیہ سے قصاص لیا جاسکتا ہے یا اسے صرف دیت ادا کرنا ہوگی۔صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اب قصاص کی شرائط پوری ہوچکی ہیں،لہذا قصاص لینا درست ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَيَدْفَعُ بِرُمَّتِهِ " "تم میں سے پچاس آدمی ان میں سے کسی ایک شخص کے قاتل ہونے کی قسمیں اٹھالیں تو وہ پوری طرح تمہارے حوالے کردیا جائے گا۔"[1] مسلم میں ہے:"تمہارے سپرد کردیا جائے گا۔" معلوم ہوا کہ قسامت گواہی کے قائم مقام ہے۔ (2)۔فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص جمعہ یا طواف کعبہ کے رش میں مرگیا تواس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائےگی،چنانچہ حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک شخص عرفہ کے میدان میں رش کی وجہ سے مرگیا۔اس کے ورثاء سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوردیت کا مطالبہ کیا۔آپ نے فرمایا:اس کے قاتل کے خلاف گواہی پیش کرو۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا:اے امیر المومنین !مسلمان کا خون رائیگاں نہیں ہوسکتا۔اگر قاتل کا علم ہوجائے تو ٹھیک ورنہ بیت المال سے دیت ادا کی جائے۔
[1] ۔صحیح مسلم کتاب وباب القسامۃ حدیث 1669 والتلخیص الحبیر 4/39 واللفظ لہ۔