کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 409
(5)۔قتل کرنے والا،خواہ اکیلاہو یا اس کے ساتھ کوئی اور شخص شریک ہو،بلا واسطہ قتل ہو یا بالواسطہ ہو،مثلاً:کسی نے عام راستے میں زیادتی کرتے ہوئے کنواں کھودا تو کوئی شخص اس میں گرکر مرگیا یا راستے میں چھری گاڑدی وغیرہ یا ایسا کوئی کام جس کے نتیجے میں کسی کی جان چلی جائے۔
ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ایک قتل میں جتنے افراد شریک ہوں گے سب پر کفارہ ہے۔یہ قول اہل علم کی اکثریت کا ہے جن میں امام مالک ،شافعی اور دیگر فقہاء رحمۃ اللہ علیہم شامل ہیں۔"[1]
(6)۔قاتل جس قسم کا بھی ہو اس پر کفارہ واجب ہے ،خواہ بڑا ہو یا چھوٹا یا مجنون،آزاد ہو یا غلام کیونکہ آیت کے حکم میں عموم ہے۔
(7)۔کفارے میں ایک مومن غلام یامومنہ لونڈی کو آزاد کرنا ہوتا ہے۔اگر اس کی طاقت نہ ہوتو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہے۔اس کفارے میں کھانا کھلانے کی صورت شامل نہیں۔اگرروزے رکھنے کی بھی طاقت نہ ہوتو کفارہ اس کے ذمے ہوگا۔کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر ہی نہیں کیا۔یاد رہے کفارے کی صورتیں نصوص شرعیہ سے ثابت ہوتی ہیں،قیاس سے نہیں۔
(8)۔اگر قتل کرنے والا غلام ہوتو وہ صرف روزے رکھ کر کفارہ دے کیونکہ اس کی ملکیت میں مال نہیں ہوتا کہ وہ کسی غلام کو آزاد کرسکے۔
(9)۔اگر قاتل مجنون یا چھوٹا بچہ ہے تو اس کا سرپرست صرف غلام یا لونڈی آزاد کرنے کی صورت میں کفارہ دے کیونکہ ان دونوں کے لیے روزے رکھنا ممکن نہیں،نیز اس میں نیابت کو بھی دخل نہیں۔الغرض! کفارہ دونوں میں سے ہر فرد پر ہےکیونکہ یہ ایک مالی حق ہے جو دیت کے مشابہ ہے ،نیز زکاۃ کی طرح یہ مالی عبادت ہے۔
(10)۔قتل ہونے والے افراد کی تعداد جس قدر زیادہ ہوگی اسی قدر کفارات کی تعداد بھی زیادہ ہوگی جیسا کہ متعدد قتل میں متعدد دیتیں ادا کرنا پڑتی ہیں،مثلاً:ایک آدمی نے چار افراد کے قتل"قتل خطا" کاارتکاب کیا تو اس پر کفارے بھی چار ہوں گے جس طرح دیتیں چار ہوں گی۔
(11)۔اگر قتل مباح ہو،مثلاً:باغی ،مرتد،شادی شدہ زانی یا کسی کو کسی مقتول کے قصاص یا کسی حد میں قتل کیا گیا یا کسی نے اپنی ذات کے دفاع میں حملہ آور کوقتل کردیا تو ان صورتوں میں کفارہ نہ ہوگا کیونکہ مقتول کی حرمت قائم نہیں۔
تنبیہ:
آج کے دور میں لوگ کفارۂ قتل میں تساہل سے کام لیتے ہیں۔خاص طور پر اگر کسی سے گاڑی(کار) کے
[1] ۔المغنی والشرح الکبیر9/668۔