کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 408
(2)۔قتل خطا میں کفارے کے مشروع ہونے میں جو حکمت ہے اس میں دو باتیں اہم ہیں:
1۔قتل خطا میں قاتل کی کوتاہی لازماً شامل ہوتی ہے۔
2۔کفارے میں قتل ہونے والی جان کا احترام اور بے گناہی پیش نظر رہے۔
(3)۔قتل عمد میں کفارہ واجب نہیں ہے کیونکہ یہ گناہ اس قدر بڑا ہے کہ کفارے سے زائل نہیں ہوسکتا،لہذا ایسا شخص اگر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور معافی کا طلبگار ہو اور خود کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کردے تاکہ وہ چاہیں تو اس سے قصاص لے لیں تو اس صورت میں اس کے گناہ میں تخفیف ہوجائے گی۔توبہ سے اللہ تعالیٰ کا حق ساقط ہو جائے گی قصاص یا معافی سے مقتول کے ورثاء کا حق ادا ہوجائےگا۔باقی رہ گیا مقتول کا حق تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل وکرم سے خوش کردےگا یا وہ قاتل کی نیکیوں کا ایک حصہ مقتول کودےدے گا۔بہرحال جو اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی وہی ہوگا۔علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے الجواب الکافی میں اس کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس کایہی مفہوم ہے۔
(4)۔جس نے کسی ایسی بے گناہ جان کو قتل کیا جو اس کا غلام تھا یا ذمی کافر یاپناہ لینے والا کافر یا نومولود بچہ یا رحم میں موجود بچہ جسے حاملہ کے پیٹ میں ضرب لگا کر ختم کردیا گیا اور پھر عورت نے اسے مردہ جنا۔ان مذکورہ اشخاص میں سے کوئی ایک قتل ہوجائے تو قاتل کے ذمے کفارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان:
" وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿٩٢﴾ "
" جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، تواس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وه لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وه مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے۔ اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیماں ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا( بھی ضروری ہے)، پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں،یہ(کفارہ) اللہ کی طرف سے بخشوانے کے لیے اور اللہ بخوبی جاننے والا اور حکمت والاہے۔"[1] میں عموم ہے۔
[1] ۔النساء:4/92۔93۔