کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 407
ہے ۔"[1]
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل سے متعلق فرمایا:
"أَعْتِقُوا عَنْهُ رَقَبَةً يَعْتِقُ اللّٰهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ"
"اس قاتل کی طرف سے غلام یا لونڈی آزاد کرو۔اللہ تعالیٰ مقتول کے ہر عضو کے بدلے قاتل کا ہر عضو آگ سے آزاد کرے گا۔"[2]
(1)۔قتل خطا اور قتل شبہ عمد دونوں میں کفارہ ہے قتل عمد میں کفارہ نہیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا"
"اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہے، اور اس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔"[3]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قتل عمد کاکفارہ بیان نہیں کیا۔ایک روایت ہے کہ سوید بن صامت نے ایک شخص کو قتل کردیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر قصاص کو واجب قراردیا،کفارہ نہیں۔
عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے دو آدمیوں کو عمداً قتل کردیاتھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دیت ادا کی لیکن کفارہ ادا کرنے کاحکم نہیں دیاتھا۔
اس کی غالباً وجہ یہ ہے کہ کفارہ ادا کرنا تب لازم ہوتا ہے جب کوئی کام غلطی سے سرزد ہوتا کہ گناہ مٹ جائے،نیز اس میں کوتاہی کو دخل ہوتا ہے جس کاازالہ کرنا ہوتا ہے۔قتل عمد اس قدر بڑاگناہ ہے کہ وہ کفارے سے زائل نہیں ہوسکتا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" قتل عمد میں کفارہ نہیں۔اسی طرح جھوٹی قسم عمداً اٹھائی گئی ہوتو جس کسی کے حق پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہو اس میں کفارہ نہیں کیونکہ اس موقع پر دیا گیا کفارہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے کے لیے تخفیف کا باعث نہیں بن سکتا۔"[4]
ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’قتل خطا کو حرام یامباح کے ساتھ متصف قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ مجنون شخص کے قتل کی طرح ہے لیکن مقتول جان معصوم تھی،لہذا اس میں کفارہ واجب قراردیا گیا۔‘‘[5]
[1] ۔النساء:4/92۔
[2] ۔(ضعیف) سنن ابی داود، العتق ،باب فی ثواب العتق ،حدیث 3964 والسنن الکبریٰ للنسائی،العتق ،حدیث 4890۔4892۔
[3] ۔النساء:4/93۔
[4] ۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیۃ: 34/139۔
[5] ۔المغنی والشرح الکبیر: 9/670۔