کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 40
" الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ "
"سونا ،سونے کے بدلے اور چاندی،چاندی کے بدلے اور گندم ،گندم کے بدلے اور جو ،جو کے بدلے اور کھجور،کھجور کے بدلے اور نمک،نمک کے بدلے برابر اورنقد ونقد بیع ہو۔"[1]
یاد رہے کہ سونے کی بیع ہر قسم کے سونے کے بدلے حرام ہے ،اس کا زیور ہو یانہ بنا ہومگر برابر برابر اورنقدونقد اورچاندی کی بیع چاندی کے بدلے بھی حرام ہوگی اگر برابر برابر اورنقد ونقد نہ ہوگی۔اسی طرح گندم کی بیع گندم کے بدلے ،جو کی جوکے بدلے،کھجور کی کھجور کے بدلے اپنی تمام اقسام کے ساتھ اور نمک کی بیع نمک کے بدلے حرام ہوگی مگر جب برابر برابر اورنقد ونقد ہو(تب جائز ہے)۔
ان چھ چیزوں پر ان چیزوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے جو علت میں ان کے مساوی اور شریک ہیں ۔جہور علماء کے نزدیک ان میں کمی وبیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا حرام ہے،البتہ ان کی علت کی تحدید میں علماء کا اختلاف ہے۔
صحیح بات یہی ہے کہ سونے اور چاندی میں حرمت کی علت"ثمنیت" ہے،لہذا موجودہ دور کی کرنسی کو ان پر قیاس کیا جائے گا۔ایک ملک کی کرنسی کا اس ملک کی کرنسی کے ساتھ تبادلہ کرتے وقت کمی بیشی حرام ہے۔
باقی چار اجناس،گندم ،جو،کھجور اورنمک میں علت(بقول صحیح) ماپ اور وزن کے ساتھ ان کا خوراک والی شے ہونا ہے،لہذا ہر وہ شے جوعلت میں ان کے ساتھ شریک ہے ،یعنی ان کا وزن اور ماپ ہوتا ہو اور خوراک میں استعمال ہوتی ہوتو اس کاتبادلہ کرتےوقت کمی بیشی کرنا حرام ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ہم جنس شے کے تبادلے میں کمی بیشی کرنا سود ہے جس کی علت ماپ اور وزن کے ساتھ شے کا قابل خوراک ہونا ہے،چنانچہ اس بارے میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی روایت ہے۔"[2]
بحث سابق کی روشنی میں اگراشیاء کی جنس اور علت کااتحاد ہوتو اس میں کمی بیشی یاکسی ایک طرف سے جنس کا ادھار حرام اور سود ہے،مثلاً:گندم کی گندم سے بیع کرنا جیسا کہ حدیث نبوی میں بیان ہوچکاہے۔اگر علت میں اتحاد ہے لیکن جنس میں اختلاف ہے،مثلاً:گندم کے ساتھ جو کی بیع کرنا(ان کی علت خوراک ہونا ہے)تو اس میں ادھار کرنا حرام ہے۔وہ ایک فریق کی جانب سے ہو یا دونوں طرف سے ،البتہ اس صورت میں کمی بیشی جائزہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
[1] ۔صحیح مسلم المساقاۃ باب الصرف وبیع الذھب بالورق نقداً حدیث 1587 ومسند احمد 3/49،50۔
[2] ۔الفتاوی الکبریٰ :5/391۔