کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 395
ان مسائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے بے گناہوں کی جان کی حفاظت کاکس قدر اہتمام کیا ہے۔آج کل بہت سے لوگ اس ذمے داری کا بالکل احساس نہیں کرتے،وہ اتنی لا پروائی سے ڈرائیونگ کرتے ہیں کہ اپنی جانوں کوبھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں اور دوسروں کی جانوں کو بھی۔بعض اوقات ایک شخص کی لاپروائی کی وجہ سے پورا خاندان موت کے منہ میں چلاجاتاہے۔اس کی ذمے داری ایسے مہم جو لڑکوں کے والدین پر بھی عائد ہوتی ہے جو عمداً گاڑیاں ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں کہ بےگناہ افراد کی جانیں لیتے پھریں،یعنی انھیں ہلاک کریں۔یہ گاڑیاں ان کے ہاتھوں میں ایسے ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہیں جن کو غیر ذمے دارانہ طور پر استعمال کرکے وہ لوگوں کو ہلاک کرتے اور دہشت پھیلاتے ہیں۔انھیں چاہیے کہ اپنی اولاد اور عام مسلمانوں کے بارے میں اللہ سے ڈریں۔اور حکمرانوں کابھی فرض ہے کہ وہ ایسے افراد کو لگام دیں تاکہ سب لوگوں کی سلامتی یقینی ہوسکے اور امن قائم ہوجائے کیونکہ حکمرانوں کے ذریعے سے ان امور کا سدباب ہوجاتا ہے جن کا سد باب محض وعظ وتلقین کے ذریعے سے نہیں ہوسکتا۔
دیتوں کا مقدار کا بیان
اسلامی قانون میں انسان کے مختلف حالات،یعنی مسلمان،آزاد،غلام،مذکر اور مؤنث ہونے کے اعتبار سے یا مقتول شخص کے بنفسہ زندہ ہونے یا ماں کے پیٹ میں جنین ہونے کے اعتبار سے الگ الگ دیت مقرر ہے۔جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ آزاد مسلمان شخص کی دیت کی مقدار سب سے زیادہ ہے جو تقریباً ایک ہزار مثقال سونے کی قیمت تک پہنچتی ہے یا بارہ ہزار اسلامی درہم ہیں(واضح رہے دس درہم کا وزن سات مثقال ہے۔)یاپھر سو اونٹ یا دوسوگائیں یا دو ہزار بکریاں بطور دیت ادا کرنا ہوں گی۔سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
" فرض رَسُول اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدِّيَةِ عَلَى أَهْلِ الْإِبِلِ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَعَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَيْ شَاةٍ "
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں والوں پر سو اونٹ اور گائیوں کے مالک پر دو سوگائیں بکریوں والوں کے ذمے دو ہزار بکریاں بطوردیت ادا کرنا فرض قراردیں۔"[1]
[1] ۔(ضعیف) سنن ابی داود، الدیات ،باب الدیۃ کم ھی؟حدیث:4543،4544۔