کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 392
دیتوں کے احکام
دیات،دیت کی جمع ہے۔دیت اس مال کو کہتے ہیں جو جنایت کرنے والا مظلوم کو یا اس کے وارث کو جنایت کے سبب اداکرتا ہے۔دیت کے وجوب کی دلیل کتاب اللہ،سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع اُمت ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ"
"جوشخص کسی مسلمان کو بلا قصد مارڈالے،اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچاناہے۔۔۔"[1]
حدیث شریف میں ہے:
" مَن قُتِلَ لَهُ قتيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أنَّ يُفْدَى وَإِمَّا أَنْ يُقْتَلَ "
"جس کا کوئی آدمی قتل کردیا گیا اسے دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرنے کاحق ہے کہ وہ دیت قبول کرلے یا قاتل سے انتقام لے۔"[2]
(1)۔ہر اس شخص پر دیت واجب ہے جس نے بلاواسطہ کسی انسان کو ختم کردیا،مثلاً: کسی کو مارا پیٹا جس سے وہ مرگیا یا اسے کار کے نیچے کچل دیا یا وہ اس کے قتل کا سبب بنا،جیسا کہ اس نے راستے میں گڑھا کھودا یا وہاں بھاری بھرکم پتھر رکھ دیا جس کے سبب کوئی انسان چلتا بنا،ان تمام صورتوں میں دیت اداکرنا ضروری ہے،خواہ تلف ہونے والامسلمان ہو یاذمی،مستامن یا اس قوم کا فرد ہو جس سے مسلمانوں کاجنگ بندی کامعاہدہ ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ"
اوراگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد وپیماں ہے تو خون بہا لازم ہے جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے۔"[3]
(2)۔اگر ایک شخص نے کسی کو عمداً قتل کیا تو دیت قاتل کے مال سے فوری طور پر دی جائے گی کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی چیز کو تلف کرنے والے ہی پر اس چیز کا بدل(قیمت وغیرہ) ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔
[1] ۔النساء:4/92۔
[2] ۔صحیح البخاری اللقطۃ باب کیف تعرف لقطۃ اھل مکۃ؟حدیث 2434،وصحیح مسلم،الحج،باب تحریم مکۃ وتحریم صیدھا۔۔۔حدیث 1355،واللفظ لہ۔
[3] ۔النساء:4/92۔