کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 391
اس میں حکمت یہ ہے کہ ممکن ہے مظلوم کا زخم خراب ہو جائے اور وہ خرابی آگے سرایت کر جائے جس کی وجہ سے پورا عضو ناکارہ ہو جائے یا اس کی جان چلی جائے۔ اگر اس نے زخم کے لگنے کے فوراً بعد قصاص لے لیا۔ پھر بعد میں اس کے زخم نے سارے عضو کوضائع کر دیا تو اسے مزید قصاص نہیں دلوایا جائے گا کیونکہ اس نے قصاص لینے میں جلد بازی سے کام لیا ہے۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
" قَضَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجُلٍ طَعَنَ رَجُلاً بِقَرْنٍ فِي رِجْلِهِ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللّٰهِ ، أَقِدْنِي ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لاَ تَعْجَلْ حَتَّى يَبْرَأَ جُرْحُكَ ، قَالَ : فَأَبَى الرَّجُلُ إِلاَّ أَنْ يَسْتَقِيدَ ، فَأَقَادَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ ، قَالَ : فَعَرِجَ الْمُسْتَقِيدُ ، وَبَرَأَ الْمُسْتَقَادُ مِنْهُ ، فَأَتَى الْمُسْتَقِيدُ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَهُ : يَا رَسُولَ اللّٰهِ ، عَرِجْتُ ، وَبَرَأَ صَاحِبِي ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَلَمْ آمُرْكَ أَلاَّ تَسْتَقِيدَ ، حَتَّى يَبْرَأَ جُرْحُكَ ؟ فَعَصَيْتَنِي فَأَبْعَدَكَ اللّٰهُ ، وَبَطَلَ جُرْحُكَ "
"ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے کی ہڈی میں نیزے کا بھالا ماردیا ،مضروب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:مجھے قصاص چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جلدی نہ کر جب تندرست ہو گا تب قصاص لے لینا لیکن اس نے قصاص لینے پر اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قصاص دلوادیا۔ جس نے قصاص لیا تھا وہ لنگڑا ہو گیا اور جس سے قصاص لیا گیا تھا وہ تندرست ہو گیا۔ چند دن بعد وہ آیا اور کہا: میں تو لنگڑا ہو گیا ہوں اور میرا صاحب ٹھیک ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے منع کیا تھا کہ زخم درست ہونے سے پہلے بدلہ نہ لو لیکن تونے میری بات نہ مانی، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے تیرے لنگڑے پن کو باطل قراردے دیا ہے۔"[1]
ان احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری شریعت محاسن کا مجموعہ ہے۔ اس کے جملہ احکام عدل و رحمت پر مشتمل ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
"وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلا لا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ "
"آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، اس کے کلام کوکوئی بدلنے والا نہیں اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔"[2]
ستیاناس ہو اس قوم کا جوان بہترین احکام کے بدلے طاغوتی اور من گھڑت بلکہ ظالمانہ احکام کا نفاذ چاہتے ہیں: "بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا""ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدل ہے۔"[3]
[1] ۔مسند احمد :2/217۔
[2] ۔الانعام: 6/115۔
[3] الکھف 18/50۔