کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 39
ادھار کاسود
اس کی دو صورتیں ہیں:
1۔ کسی تنگ دست کے قرض میں تبدیلی کرنا۔سودکی یہ شکل زمانہ جاہلیت میں تھی۔ایک شخص مقرر مدت کے لیے کسی سے ادھار رقم لیتاتھا جب مقرر مدت ختم ہوجاتی تو قرض خواہ مقروض سے کہتا کہ میری رقم(قرضہ) ادا کرو (ورنہ میعاد کے عوض) سود اداکرو۔اگرمقروض ادائیگی کردیتا توٹھیک ورنہ قرض خواہ ایک مدت کے لیے مزید رقم بڑھا دیتا۔اس طرح مدت بڑھنے کے ساتھ مقروض پر قرض کی رقم بھی بڑھتی چلی جاتی حتیٰ کہ کچھ مدت بعد اصل قرض سے کئی گنا رقم اس کے ذمے واجب الادا ہوتی۔اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام قراردیتے ہوئے فرمایا:
" وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ "
"اور اگر کوئی تنگی والاہوتو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے۔"[1]
اس آیت کی روشنی میں حکم یہ ہے کہ جب قرضہ واپس کرنے کی مقررہ مدت پوری ہوجائے اور مقروض قرض واپس نہ کرسکے تو تنگ دست کو مہلت دی جائے،قرضے کی مقدار میں اضافے نہ کیاجائے۔اور اگر خوشحال ہے تو وہ قرض واپس کردے،لہذا خوشحال مقروض کے قرض میں بھی اضافہ جائز نہیں جیساکہ تنگ دست مقروض کے قرض میں اضافہ جائز نہیں۔
دو ہم جنس اشیاء کے باہمی تبادلے میں کسی ایک یا دونوں جنسوں کی ادائیگی میں ادھار کرنا،جس کی علت ایک ہو،[2] حرام ہے،جیسے سونے کی سونے کے ساتھ بیع یا چاندی کی چاندی کے ساتھ ،گندم کی گندم کے ساتھ, جو کی جو کے ساتھ،کھجور کی کھجور کے ساتھ ،نمک کی نمک کے ساتھ بیع کرنا۔اسی طرح ان مذکورہ اشیاء کی بیع جنس کے بدلے جنس سے ادھار ہو اور ان مذکورہ اشیاء کی علت میں جو شے بھی شریک ہو اس کابھی یہی حکم ہے۔
اضافے والا سود
اس میں سود کی صورت یہ ہے کہ ہم جنس چیزوں میں تبادلے کے وقت کسی جانب سے کمی بیشتی ہو یا ادھار ہو۔
شارع نے چھ اشیاء کا نام لے کر ان کی حرمت واضح کی ہے،یعنی سونا،چاندی ،گندم،جو،کھجور اور نمک۔جب ان میں سے کسی ایک جنس کا تبادلہ ہم جنس سے ہوتو اس میں کمی وبیشی کرناحرام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
[1] ۔البقرۃ:2/280۔
[2] ۔علت کی وضاحت آگے آرہی ہے۔(صارم)