کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 387
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :"میں اپنے عمال کو اس لیے نہیں بھیج رہا کہ وہ لوگوں کو ماریں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جس نے ایسا کیا میں اس سے قصاص لوں گا۔اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قصاص کے لیے خود اپنے آپ کو پیش کرتے تھے۔"[1]اس کا مطلب یہ ہے کہ(حاکم سے) قصاص تب لیا جائے گا جب حاکم کسی کو ناجائز سزادے۔ اگر جائز سزا ہو تو اس میں بالا جماع قصاص نہیں۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"شافعیہ،حنفیہ ،مالکیہ اور متاخرین حنابلہ وغیرہ کا یہ مسلک ہے کہ تھپڑاور ضربہ (مارنے)میں قصاص نہیں ۔ بعض نے اس پر اجماع کا دعوی نقل کیا ہے،حالانکہ یہ قول قیاس صریح ،نصوص اور اجماع صحابہ کے خلاف ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ "
"اور تم اگر بدلہ لوتو بالکل اتنا ہی بدلہ لو جتنا صدمہ تمھیں پہنچا یا گیا ہے۔"[2]
"مظلوم کو چاہیے کہ تھپڑ کے بدلے تھپڑ رسید کرے اور اسی جگہ پر مارے جہاں پر مارا گیا تھا اور ویسی ہی چیز سے ضرب لگائے جس چیز سے اسے ضرب لگائی گئی۔ یہی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور خلفائے راشدین کا بھی یہی عمل ہے اور قیاس کا بھی یہی تقاضا ہے۔"[3]
ایک شخص کا قصاص پوری جماعت سے لینے کا بیان
اگر لوگوں کی ایک جماعت مل کر ایک شخص کو ارادتاً وظلما قتل کر دے تو ان سب سے قصاص لیا جائے گا۔ علماء کی صحیح رائے کے مطابق مقتول کے بدلے میں سب قتل کیے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان :
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٨﴾ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ"
"اےا یمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے ،آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے اور عورت عورت کے بدلے ، ہاں! جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی
[1] ۔مسند احمد :1/ 41باختصار، و مجموع الفتاوی: 28/379۔380۔
[2] ۔النحل:16/126۔
[3] ۔اعلام الموقعین :1/294۔