کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 386
3۔ ظالم اور مظلوم دونوں کے عضو صحیح یا مریض ہونے میں اور کامل یا ناقص ہونے میں برابر ہوں۔لہٰذا کامل اور صحت مند ہاتھ یا ٹانگ کے بدلے میں ظالم کا بیمار یا ناکارہ ہاتھ یا ٹانگ نہیں کاٹی جائے گی۔پوری انگلیوں اور پورے ناخن والا ہاتھ یا پاؤں کے بدلے میں نہیں کاٹا جائے گا،اس میں دیت ہوگی ۔قصاص میں دیکھنے والی اور نہ دیکھنے والی آنکھ یا بولنے والی اور نہ بولنے والی زبان برابر نہیں۔اس صورت میں اگر مظلوم چاہے تو اپنے کامل عضو کے بدلے مجرم کا ناقص عضو کاٹ کر قصاص لے سکتا ہے ورنہ دیت قبول کر لے۔
زخموں میں قصاص:
ہر وہ زخم جو ہڈی تک اثر کر جائے اس میں قصاص ہے کیونکہ اس میں کمی و بیشی کے بغیر پورا پورا بدلہ لینے کی صورت ممکن ہے، مثلاً:سر چہرے کا ایسا زخم جس سے ہڈی ننگی ہو جائے یا بازو ،پنڈلی ،ران اور قدم کا زخم ہو۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ"،"اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے۔"[1]
جو زخم ہڈی تک نہ پہنچ پائے اس میں قصاص بھی نہیں، مثلاً:سر وغیرہ کا معمولی زخم یا پیٹ کا گہرا زخم اس میں کمی بیشی ضرور ہوجاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: " لَا قَوْدَ فِي الْمَأْمُومَةِ وَلَا الْجَائِفَةِ وَلَا الْمُنَقِّلَةِ " "مامومہ ،جائفہ اور منقلہ میں قصاص نہیں۔"[2]
یاد رہے! مامومہ سے مراد ایسا زخم ہے جو دماغ تک پہنچ جائے۔جائفہ وہ زخم ہے جو پیٹ کے اندر تک پہنچے اور منقلہ وہ زخم ہے جس سے سر پھٹ جائے اور ہڈی سر ک جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ زخموں میں قصاص کتاب اللہ ،سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع سے ثابت ہے بشرطیکہ دونوں شخصوں میں مساوات ہو۔ اگر کسی نے سر پھوڑدیا تو قصاص میں بھی سر پھوڑا جائے گا۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو،مثلاً: کسی نے اندرونی ہڈی توڑ دی یا سر میں زخم لگایا جو گہرا نہ تھا تو اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت واجب ہے۔‘‘ [3]
ہاتھ ،لاٹھی یا کوڑے وغیرہ کی ضرب میں قصاص سے متعلق شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"اہل علم کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ اس میں قصاص نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ خلفائے راشدین اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم سے منقول ہے کہ مذکورہ صورتوں میں قصاص ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہائے کرام سے یہی منقول ہے۔سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہی وارد ہے۔اور (ہمارے ہاں) یہی نقطۂ نظر درست ہے۔‘‘[4]
[1] ۔المائدہ:5/45۔
[2] ۔سنن ابن ماجہ، الدیات، باب مالا قود فیہ، حدیث: 2637۔
[3] ۔مجموع الفتاوی: 1/475۔
[4] ۔ملاحظہ کیجئے سابقہ حوالہ۔