کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 384
کام کے ارتکاب کے ذریعے سے قتل کیا تو اسے تلوار ہی کے ساتھ قتل کیا جائے گا۔ آج کے دور میں کسی کو گولی مار کر قتل کرنا تلوار کے ساتھ قتل کرنے کے مترادف ہے بشرطیکہ مارنے والا اچھا نشانہ باز ہو۔
اعضاء اور زخموں میں قصاص کا حکم
جسمانی اعضاء اور زخموں کا قصاص لینا کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالأَنْفَ بِالأَنْفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ "
’’اور ہم نے یہودیوں کے ذمے تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے۔‘‘[1]
صحیحین میں یہ واقعہ موجود ہے کہ سیدہ ربیع رضی اللہ عنہا کے دانت توڑنے کے واقعے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"كِتَابُ اللّٰهِ القِصَاصُ" ’’ کتاب اللہ میں اللہ کا قانون قصاص ہے۔‘‘[2]
جس شخص سے جان کا قصاص لینا درست ہے اس سے اعضاء اور زخموں کا قصاص لینا بھی درست ہے بشرطیکہ اس میں مذکورہ شرائط موجود ہوں:
1۔ یعنی جسے زخم لگایا گیا ہو یا جس کا کوئی عضو کاٹ دیا گیا ہو وہ شخص بے قصور ہو۔
2۔ جنایت کرنے والا مکلف ہو۔
3۔ مظلوم (آزادی اور غلامی میں)جنایت کرنے والے کے بر ابر کا ہواور جنایت کرنے والا باپ، دادا ،نانا نہ ہو۔ اور جس شخص سے جان کا بدلہ لینا درست نہیں اس سے زخم کا یا عضو کے کاٹ دینے کا بدلہ لینا بھی درست نہیں۔اس باب میں یہی قاعدہ چلتا ہے، مثلاً:باپ نے بیٹے کو قتل کر دیا یا زخمی کر دیا تو قصاص نہیں۔
جو صورتیں جان کے قصاص کو واجب قراردیتی ہیں وہی صورتیں ا عضاء کے قصاص کو واجب قرار دیتی ہیں ،یعنی جنایت کرنے والا عمدا جنایت کا مرتکب ہو، لہٰذا "شبہ عمد"یا "خطا"کی صورت میں زخموں اور اعضاء میں قصاص نہیں۔اعضاء میں قصاص کی صورت یہ ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان ،
[1] ۔المائدہ:5/45۔
[2] ۔صحیح البخاری، الصلح، باب الصلح فی الدیۃ، حدیث 2703۔وصحیح مسلم، القسامۃ، باب اثبات القصاص فی الاسنان وما فی معناھا ،حدیث1675۔