کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 383
کے فیصلے میں زیادتی نہ ہو جائے اور شریعت کے تقاضے بھی پورے ہوں۔
قصاص لینے کے لیے ایسا ہتھیار استعمال میں لایا جائے جو تیز دھار ہو،مثلاً: تلوار یا چھری وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ " "جب تم (کسی ) کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو۔"[1]
قصاص لینے کے لیے ایسا آلہ استعمال نہ کیا جائے جو کند ہو کیونکہ یہ قصاص میں زیادتی کرنے کے مترادف ہے جو ممنوع ہے۔
اگر مقتول کا سر پرست شرعی طریقے سے اور اچھے انداز میں قصاص لے سکتا ہو تو ٹھیک ورنہ حاکم مقتول کے ولی کو حکم دے گا کہ کسی کو وکیل بنائے تاکہ وہ اس کے لیے قصاص لے۔
اہل علم کا صحیح قول یہی ہے کہ مجرم سے قصاص لیتے وقت وہی صورت اختیار کی جائے جو مجرم نے اختیار کی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ "
"اور اگر تم بدلہ لو تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمھیں پہنچایا گیا ہو۔"[2]
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ "
"پھر جو تم پر زیادتی کرے توتم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی ہے۔"[3]
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہودی کا سر اسی طرح پتھروں سے کچلا جائے جیسے اس نے ایک (انصاری لڑکی) کا سر کچلا تھا۔[4] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ" شریعت اور انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ مجرم جیسا کرے، ویسا بھرے ۔ کتاب اللہ ،سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر متفق ہیں۔"
اگر مجرم نے کسی کے پہلے ہاتھ کاٹے ،پھر اسے قتل کیا تو قصاص بھی اسی طرح لیا جائے گا۔ اس نے پتھر کے ساتھ یا پانی میں ڈبو کر یا کسی اور صورت سے قتل کیا تو مجرم کو بھی اسی طرح لیا جائے گا، البتہ مذکورہ صورتوں میں اگر وارث صرف تلوارسے قتل کرنے پر راضی ہو تو اسے اختیار ہے اور یہ افضل بھی ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی کو حرام
[1] ۔صحیح مسلم، الصید، باب الامر با حسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃ، حدیث1955۔
[2] ۔النحل:16/126۔
[3] ۔البقرۃ:2/194۔
[4] ۔صحیح البخاری ،الخصومات، باب مایذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیہود، حدیث2413۔