کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 380
دیکھتے کہ مجرم نے کس طرح وحشت اور ظلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بے قصور شخص کو قتل کرنے کا اقدام کیا، شہر میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی، کئی عورتوں کو بیوہ کیا، مقتول کے بچوں کو یتیم کیا، کئی گھروں کو ویران اور متاثر کیا۔ درحقیقت یہ لوگ ظالم پر ترس کھاتے ہیں۔بے قصور اور مظلوم سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔ ان لوگوں کی سوچ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
"أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ "
"کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔"[1]
قصاص میں مجرم سے اس کے کیے ہوئے جرم کی مثل یا اس کے مشابہ بدلہ لیا جاتا ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ قصاص لینے سے مظلوم یا اس کے ورثاء کا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے، ان کے دل کو تشفی ہو جاتی ہے، ظلم کا سد باب ہوجاتا ہے، دل و دماغ میں اٹھنے والے طوفان کا تدارک ہو جاتا ہے ،نیز اہم بات یہ ہے کہ نظام قصاص کے نفاذ میں نوع انسانی کی بقا مضمرہے۔
عہد جاہلیت میں انتقام لینے میں مبالغے سے کام لیا جاتا تھا۔ اس کی ایک صورت یہ تھی کہ زیادہ تر مجرم کے ساتھ ساتھ غیر مجرم سے بھی بدلہ لیاجاتا۔ یہ ایسا ظلم تھا جس سے مقصد حاصل نہ ہوتا تھا بلکہ فتنہ اور خونریزی بڑھتی تھی۔ جب دین اسلام آیا تو اس نے دیگر احکام کے ساتھ نظام قصاص بھی دیا اور بتایا کہ قصاص صرف قصور وار سے لیا جائے۔
ان احکام سے لوگوں کو عدل وانصاف ملا اور خونریزی رک گئی ۔معاشرے میں امن و سکون کے پھول کھل گئے ۔
قصاص تب واجب ہوگا جب مذکورہ شرائط موجود ہوں ۔ علاوہ ازیں فقہائے کرام نے چند مزید شرائط کا ذکر بھی کیا ہے جو قصاص لینے والے وارث میں ہوں اور وہ تین ہیں:
1۔ قصاص کا مطالبہ کرنے والا عاقل و بالغ ہواگر وہ بچہ یا دیوانہ ہو گا تو اس حال میں قصاص کا مطالبہ کرنا اس کے لیے درست نہ ہوگا کیونکہ قصاص لینے سے مظلوم یا مظلوم کے ورثاء کوان کے انتقامی جذبات کی تشفی و تسکین حاصل ہوجاتی ہے یہ چیز بچے یا دیوانے کو حاصل نہیں ہو تی۔ لہٰذا قصاص کے اجرامیں انتظار کر لیا جائے اور مجرم کو اس وقت تک جیل میں بند رکھا جائے جب تک بچہ بالغ نہ ہو جائے یا دیوانہ صحیح نہ ہو جائے ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہدبہ بن خشرم کو اس وقت تک جیل میں بند رکھا جب تک مقتول کا بیٹا بالغ نہ ہوگیا ۔یہ کام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں ہوا اور کسی نے اعتراض نہ کیا، لہٰذا اس مسئلے پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا
[1] ۔المائدۃ:5/50۔