کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 38
حرام ہے لیکن محتاج پر وہ ظلم وضرر نہیں جو سود لینے میں ہے۔اور یہ بات واضح ہے کہ محتاج پر ظلم،غیر محتاج کی نسبت زیادہ براہے۔"[1]
سود کھانا یہود کا شیوہ تھا جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اور مسلسل لعنت کے مستحق قرار پائے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللّٰهِ كَثِيرًا ﴿١٦٠﴾ وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا"
"پھر ان لوگوں کے ظلم کی وجہ سے جویہودی ہوئے اوران کے اکثرلوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کی وجہ سے ہم نے کچھ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلےان کے لیے حلال تھیں۔ اور اس وجہ سے بھی کہ وہ سود لیتے تھے ، حالانکہ انہیں اسے منع کیا گیا تھا اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کامال ناحق کھاتے تھے اور ہم نےان میں سے کافروں کےلیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔"[2]
سود کو حرام قراردینے میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کامال ناحق کھایاجاتا ہے کیونکہ سودخور لوگوں سے وہ مال وصول کرتا ہے جس کے عوض میں انھیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔سود خور فقراء اور ناداروں پر کئی گنا قرض چڑھا دیتا ہے جس کی ادائیگی سے وہ عاجز ہوجاتے ہیں۔سود سے لوگوں کے ساتھ نیکی اور ہمدردی کرنے کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے قرض حسنہ دینے کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور قرض کا ایک ایسا بُرادروازہ کھلتا ہے جس کا بڑھتا ہوا بوجھ برداشت کرنا غریب آدمی کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے۔سود کی وجہ سے کمائی کے جائز ذرائع تجارتیں،پیشے اور صنعتیں(جن کے ساتھ لوگوں کی مصلحتیں وابستہ ہیں) ناکارہ اور معطل ہوجاتی ہیں کیونکہ سود خورسودکےذریعے سے کسی مشقت کے بغیر ہی خوب مال کماتا ہے اور محنت ومشقت والے کمائی کے ذرائع تلاش نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نےلوگوں کومعیشت کا ایسا نظام دیا ہے کہ ہر ایک دوسرے سے استفادہ کرے۔ایک محنت کرے،دوسرا اس کو اس کا معقول معاوضہ دے یا ایک شخص ایک چیز دے اور دوسرا اس کے عوض رقم ادا کرے۔سود اس شکل سے خالی وعاری ہے کیونکہ سود میں کمزور،طاقتور کوکئی گنا مال دیتا جاتاہے، دوسرے فریق کی طرف سے اس کے عوض کوئی چیز وصول نہیں ہوتی نہ اس کے عوض کوئی کام کیا جاتا ہے۔
سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کے لغوی معنی"اضافہ" کے ہیں شریعت میں" مخصوص اشیاءمیں اضافے" کانام ہے۔اس کی دو قسمیں ہیں:
1۔ادھار کا سود اور 2۔اضافے کا سود۔
[1] ۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰه علیہ 20/346،347۔
[2] ۔النساء:4/160،161۔