کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 379
بدلے قتل کیا جائے گا۔اسی طرح معزز اور غیر معزز ،بڑے اور چھوٹے یا مرد اور عورت یا عقل مند اور کم عقل میں بسلسلۂ قصاص کوئی فرق و امتیاز نہ ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان : "وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ" "اور ہم نےیہودیوں کے ذمے تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان ہے۔"[1] نیز ارشاد الٰہی ہے:"الْحُرُّ بِالْحُرِّ"" آزاد کےبدلے آزاد (کاقصاص ہے)[2] میں عموم ہے۔ قاتل والد نہ ہو، یعنی مقتول قاتل کا بیٹا ،پوتا یا بیٹی ،پوتی وغیرہ نہ ہو۔اگر والدین یا دادا ،نانا وغیرہ اپنے کسی بچے کو قتل کر دیں گے تو انھیں قصاص میں قتل نہ کیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " لَا يُقْتَلُ وَالِدٌ بِوَلَدِهِ " "اولاد کے بدلے والد کو قتل نہ کیا جائے۔"[3] ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یہ روایت حجاز اور عراق کے علمائے حدیث کے ہاں معروف مشہور ہے۔" اس حدیث سے اور اسی مفہوم کی دوسری احادیث سے ان نصوص کے عموم میں تخصیص ہو جاتی ہے، جن میں وجوب قصاص کا حکم وارد ہوا ہےاور یہ جمہور اہل علم کا مسلک ہے، البتہ اولاد کوو الدین کے بدلے میں بطور قصاص قتل کرنا درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں عموم ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى" "اے ایمان والو!تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے ۔"[4] یادرہے اگر باپ اولاد کوقتل کردے تو قصاص میں اسے قتل نہ کرنے کی دلیل موجود ہے جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا ہے۔اس لیے والد کو مستثنیٰ قراردیا گیا ہے، جب یہ چارشرائط موجود ہوں تو مقتول کے وارث قصاص لینے کا حق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قصاص کی مشروعیت کا مقصد لوگوں کے ساتھ رحمت و شفقت کرنا اور ان کی جانوں کو محفوظ رکھنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" "عقل مندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اس باعث تم(قتل ناحق سے) رکوگے۔"[5] ستیاناس ہو ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ قصاص وحشی اور ظالمانہ سزاؤں کا نام ہے۔ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے اور
[1] ۔المائدہ:5/45۔ [2] ۔البقرۃ:2/178۔ [3] ۔ جامع الترمذی ،الدیات، باب ماجاءفی الرجل یقتل ابنہ یقاد منہ ام لا ؟حدیث1401۔وسنن ابن ماجہ، الدیات، باب لا یقتل الوالد بولدہ ، حدیث 2662۔ [4] ۔البقرۃ:2/178۔ [5] ۔البقرۃ:2/179۔