کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 375
3۔ اگر قاتل کے ذمے دیت نہیں تو اس پر کچھ نہ کچھ تاوان پڑنا چاہیے اور یہ کفارے کا بوجھ ہے۔
عاقلہ کو دیت کی ادائیگی کاذمےدار بنانے اور قاتل پر کفارہ ڈالنے میں کئی ایک حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو عظیم و بر ترہے اس نے اپنے بندوں کی دینی و دنیاوی مصلحتوں اور منافع کا کس قدر خیال رکھا ہے۔
عاقلہ (عصبہ)میں غلام، بچہ، نادار ،دیوانہ عورت اور دوسرے مذہب کا آدمی شامل نہیں کیونکہ یہ افراد مدد و تعاون کرنے والوں میں داخل و شامل نہیں ہوتے۔
قتل خطا کی دیت تین سال کے اندر اندر اداکرنا ضروری ہے۔ حاکم کوچاہیے کہ وہ قاتل کے ہر عصبہ پر دیت کا اس قدرحصہ دینا مقرر کرے جو اس کی استطاعت میں ہو، نیز سب سے پہلے قاتل کے قریب ترین عصبہ پر ذمے داری ڈالے اگر وہ نہ ہوں تو اس سے دور والوں پر بوجھ ڈالے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جب دیت جلد لینے میں مصلحت ہو تو عاقلہ کو ادائیگی دیت میں مہلت نہ دی جائے بلکہ نقدوصول کی جائے۔"[1]
قصاص کے احکام
قتل عمدکی صورت میں شرائط مکمل ہوں تو قصاص کی مشروعیت پر علماء کا اجماع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ"
’’اے ایمان والو!تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے اور عورت عورت کے بدلے۔‘‘[2]
نیز ارشاد ہے:
"وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ"
’’اور ہم نے(یہودیوں کے ذمے )تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان ہے۔‘‘[3]
قرآن مجید کا یہ حکم تورات میں بھی تھا۔ یادرہے سابقہ شریعت کا ہر حکم ہمارے لیے بھی قابل عمل ہے الایہ کہ جسے ہماری شریعت منسوخ قراردے دے ۔ قصاص کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
[1] ۔الفتاوی الکبری ،الاختیارات العلمیۃ، الدیات5/525۔
[2] ۔البقرۃ:2/178۔
[3] ۔المائدہ:5/45۔