کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 371
5۔ کسی کا رسی وغیرہ سے گلا گھونٹ دینا یا اس کی ناک اور منہ بند کر دینا حتی کہ وہ مرجائے ،قتل عمد ہے۔ 6۔ کسی کو باندھ دینا یا کمرے میں بند کر دینا اور اسے کھانے پینے کے لیے کچھ نہ دینا حتی کہ وہ مرجائےقتل عمد ہے۔ 7۔ جادو کا ایسا طریقہ اختیار کرنا جو عموماً موت کا سبب ہواور جادو کرنے والے کو علم بھی ہو کہ اس سے انسان مرجاتے ہیں ،قتل عمد ہے۔ 8۔ کسی کو زہرپلا دینا یا کھانے پینے کی ایشاء میں عمداً زہر ملا کر کسی کو کھلا پلا دینا جس سے وہ مر جائے اور پینے والے کو علم نہ ہو کہ اس میں زہر تھا، قتل عمد ہی کی شکل ہے۔ 9۔ کچھ افراد جھوٹی گواہی دے کر کسی پر ایسے جرم کے ارتکاب کا الزام لگادیں جس کی حد قتل ہو، مثلاً:زنا، مرتد ہونا یا کسی کو قتل کرنا اور ان لوگوں کی گواہی کے سبب ملزم کو قتل کر دیا جائے، پھر گواہان اپنی گواہی سے رجوع کر لیں اور تسلیم کریں کہ ہم نے ارادتاً ایسا کیا تھا تو وہ سب قتل کیے جائیں گے کیونکہ وہ اسے قتل کروانے کا سبب بنے ہیں۔ فقہائے کرام نے قتل شبہ عمد کی تعریف یوں کی ہے :" کوئی کسی کو ناحق یا تادیباً سزا دینے کی خاطر ایسی شے سے ضرب لگائے جس سے عموماً آدمی مرتانہ ہو لیکن وہ مر جائے ۔"جنایات کی اس قسم کو شبہ عمد اس لیے کہا جا تا ہے کہ جنایت کرنے والے نے سزا دینے کا تو ارادہ کیا تھا لیکن قتل کرنا مقصد نہ تھا۔ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جس شخص نے کسی کو ایسی شے سے ضرب لگائی جس سے عام طور پر آدمی قتل نہیں ہوتا لیکن وہ مرگیا تو اس کا حکم قتل عمد اور قتل خطا کے درمیان ہے۔ وہ قتل عمد ہے کیونکہ اس کا مقصد اسے ہتھیار سے ضرب لگانا اور قتل خطا بھی ہے کیونکہ اس سزا سے اس کا مقصد قتل کرنا نہ تھا۔"[1] "شبہ عمد" کی چند مثالیں یہ ہیں :کسی کو کوڑا مارا گیا یا چھوٹی لاٹھی سے ضرب لگائی (جس سے عادتاًانسان قتل نہیں ہوتا) مکایا تھپڑ مارا یا اس کے سا تھ اپنا سر ٹکرایا جس کے نتیجے میں وہ مرگیا تو یہ شبہ عمد ہے۔ اس صورت میں قصور وار کے مال میں سے کفارہ دینا لازم آتا ہے اور وہ ہے غلام یا لونڈی کا آزادکرنا۔ اگر اس کی طاقت نہ ہوتو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا ہے جیسا کہ قتل خطا میں واجب ہوتا ہے اور شبہ عمد میں قتل خطا کی نسبت بھاری دیت ہے جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہذیل قبیلے کی دو عورتیں باہم لڑ پڑیں تو ایک نے دوسری کو پتھر مارا جس سے وہ عورت اور اس کے پیٹ میں موجود بچہ دونوں ہی مر گئے۔ " قَضَى بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا"
[1] ۔بدایہ المجتہد:2/704۔