کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 370
اونٹ ہیں جن میں سے چالیس اونٹنیاں حاملہ ہوں گی۔‘‘[1]
قتل عمد یہ ہے کہ مجرم کسی بے گناہ شخص کو یہ جانتے ہوئے قتل کردے کہ وہ انسان ہے اور وہ ایسی شے (آلہ) استعمال کرے جس سے قتل ہو جانے کا گمان غالب ہو۔
اس تعریف سے ثابت ہوا کہ کوئی بھی قتل ’’قتل عمد‘‘تب ہوگا جب اس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں:
1۔ قاتل نے قتل ارادے کے ساتھ کیا ہو۔
2۔ قاتل کو معلوم ہو کہ اس نے جسے قتل کیا ہے وہ انسان ہے اور(فی الحقیقت ) قصور وار نہ تھا بلکہ معصوم تھا۔
3۔ قتل میں جو آلہ استعمال کیا گیا وہ ایسا ہو جس سے عام طور پر آدمی قتل ہو سکتا ہو۔ وہ آلہ دھاروالا ہو یا بغیر دھار کے۔
اگر ان شرائط میں سے ایک شرط بھی کم ہو تو قتل عمد نہ ہوگا کیونکہ عدم ارادہ سے قصاص لازم نہیں آتا۔ اگر کوئی ایسے ہتھیار کے سبب قتل ہوا جس سے عام طور پر کوئی قتل نہیں ہو سکتا تو اسے اتفاقی قتل قراردیا جائے گا، یعنی قتل خطا قرارپائے گا قتل عمد نہیں۔
تحقیق واستقراسے معلوم ہوا کہ قتل عمد کی درج ذیل نو صورتیں ہیں:
1۔ کسی کو ایسے ہتھیار کے ساتھ زخم لگایا جائے جو جسم میں داخل ہوجاتا ہو، مثلاً: چھری، کا نٹا یا تیز آلات وغیرہ۔ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس صورت کے قتل عمد ہونے میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔
2۔ کسی کو بھاری بھر کم شے سے زخمی کیا جائے، مثلاً: پتھر وغیرہ ۔اگر پتھر چھوٹا ہو تو مر جانے کی صورت میں قتل عمد نہ ہوگا الایہ کہ پتھر جسم کے اس حصے پر مارا جائے جہاں چوٹ لگنے سے موت واقع ہو جاتی ہے یا وہ پہلے ہی انتہائی کمزور ہو، مثلاً:بیمار ہو،بچہ ہو، بوڑھا ہو یا گرمی سردی لگنے سے کمزور ہو گیا ہو یا اسے چھوٹا پتھر بار بار مارا گیا حتی کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ اسی طرح کسی نے ایک شخص پر دیوار گرادی یا گاڑی چڑھادی یا دھکا دے کر بلندی سے گرادیا اور وہ مر گیا تو یہ قتل عمد ہے۔
3۔ کوئی کسی کو چیر پھاڑ کرنے والے خونخوار جانور کے آگے پھینک دے، مثلاً:شیر ،سانپ وغیرہ ۔ان جانوروں کے آگے کسی کو جان بوجھ کر اور ارادتاًپھینکنا اسے عمداً قتل کرنے کے مترادف ہے۔
4۔ کسی کو ایسی آگ یا پانی میں ڈال دیا جائے جس سے اس کا نکلنا ناممکن ہو۔
[1] ۔سنن ابی داؤد، الدیات ،باب فی دیۃ الخطا شبہ العمد، حدیث 4547وسنن النسائی، القسامۃ باب کم دیۃ شبہ العمد ؟حدیث :4795۔وسنن ابن ماجہ، الدیات ،باب دیۃ شبہ العمد مغلظۃ، حدیث 2627۔