کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 367
قتل کے احکام اور اس کی اقسام
جنایات، جنایۃ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی ہیں:"کسی کے بدن، مال یا عزت پر تجاوز کرنا۔ "فقہائے کرام نے جسمانی نقصان سے متعلق شرعی مسائل کو کتاب الجنایات کے تحت بیان کیا ہے جبکہ باقی دو قسموں (کسی کے مال یا عزت کو نقصان پہنچانا ) کو کتاب الحدود کا عنوان دیا ہے۔
کسی شخص کو بدنی طور پر نقصان پہنچایا جائے تو اس میں قصاص یا دیت اور کفارہ لازم آتا ہے۔ تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے۔ اس کی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالْحَقِّ"
"اور جس کا خون کرنا اللہ نے حرام کر دیا ہے اسے قتل مت کرو، ہاں! مگر حق کے ساتھ۔"[1]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"لا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بإِحْدَى ثَلاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِيْ، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّاركُ لِدِيْنِهِ المُفَارِقُ للجمَاعَةِ"
"کسی مسلمان آدمی کا خون بہانا حلال نہیں سوائے تین قسم کے گناہوں میں سے کسی ایک گناہ کا ارتکاب کرنے والے کے : شادی شدہ زنا کرے یا کوئی کسی کو قتل کردے یا دین کو چھوڑدے اور مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو جائے۔"[2]
جس شخص نے کسی مسلمان کو ناجائز قتل کیا، اس کے بارے میں انتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا"
"اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہے اور اس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔"[3]
[1] ۔الانعام:6/151۔
[2] ۔صحیح مسلم، القسامۃ، باب ما یباح بہ دم المسلم ؟حدیث 1676۔
[3] ۔النساء:4/93۔