کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 363
"وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، أُمَّكَ وَأَبَاكَ, وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ, ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ"
"اس سے ابتدا کر جس کا نان و نفقہ تیرے ذمے ہے، یعنی تیری والدہ ،تیرا والد ،تیری بہن اور تیرا بھائی ،پھر اس کے بعد کے قریبی رشتے دار کو دو۔"[1]
درحقیقت یہ روایت اللہ تعالیٰ کے فرمان : "وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ""کی وضاحت کر رہی ہے۔
والد کا فرض ہے کہ وہ اکیلا اپنی اولاد کے جملہ اخراجات (نان و نفقہ وغیرہ)پورے کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کو یہی بات کہی تھی کہ"خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ " اس روایت سے واضح ہوتا ہےکہ اکیلے باپ پر لازم ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا نفقہ برداشت کرے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"
"اور باپ کے ذمے ہے کہ ان (کی ماؤں) کو دستور کے مطابق کھانا اور کپڑا دے۔"[2]
نیز فرمان الٰہی ہے:
"فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ "
"اگر تمہارے کہنے سے وہی دودھ پلائیں تو تم ان کو ان کی اجرت دے دو۔"[3]
اس آیت سے واضح ہوا کہ بچے کی رضاعت کے اخراجات اس کے باپ کے ذمے ہیں ماں کے ذمے نہیں۔
اگر کسی فقیر شخص کے اقرباء مالدار ہوں(ان میں باپ نہ ہو) تو اسے نان و نفقہ مہیا کرنے میں سب رشتے دار شریک ہوں گے اور وہ اس قدر حصہ ڈالیں گے جس قدر اس کی وراثت میں ان کا حصہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نفقہ مہیا کرنے کی مقدار کا دارومدار اس کے حق وراثت پر رکھا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
"وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ" "وارث پر بھی اسی جیسی ذمے داری ہے۔"[4]
مثلاً: کسی شخص کی دادی اور اس کا سگا بھائی دونوں مالداہوں تو دادی اس فقیر شخص کی ضروریات زندگی کا چھٹا حصہ پورا کرے باقی مال سگا بھائی مہیا کرے گا کیونکہ یہ فقیر شخص اگر مال چھوڑ کر مر گیا تو اس کے ترکہ میں سے ان دونوں کا حصہ اسی قدر ہے۔
جہاں تک غلاموں اور لونڈیوں کے نفقہ و لباس وغیرہ اور جانوروں کو خوراک وغیرہ مہیا کرنے کا مسئلہ ہے تو اس کی ذمے داری ان کے مالک پر ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
[1] ۔سنن النسائی، الزکاۃ، باب ایتہما الید العلیا حدیث 2533۔
[2] ۔البقرۃ:2/233۔
[3] ۔الطلاق:65/6۔
[4] ۔البقرۃ:2/233۔